انیس الارواح، مجلس (۷)
دلچسپ معلومات
ملفوظات :خواجہ عثمان ہارونی جامع : خواجہ معین الدین چشتی
مومن کو تکلیف دینے کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ نے رسول اللہ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے مومن کو ستایا سمجھو کہ اس نے مجھ کو ناراض کیا اور جس نے مجھے ناراض کیا اس نے خداوند تعالیٰ کو ناراض کیا، ہر مومن کے سینے میں اسّی پردے ہوتے ہیں اور ہر پردہ پر فرشتہ کھڑا ہوتا ہے جو شخص کسی مومن کو ستاتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے اسّی فرشتوں کو ناراض کیا۔
پھر نماز کے بارے میں گفتگو ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ یہ نماز فریضہ نماز کے بعد ادا کی جاتی ہے اور ہمارے مشائخ نے اس نماز کو ادا کیا ہے، پس جو شخص ظہر کی نماز سے پہلے چار رکعت نماز ادا کرے اور جو کچھ قرآن سے جانتا ہو پڑھے تو خداوند تعالیٰ اسے بہشت کی خوشخبری دیتاہے اور اس کے لئے اس وقت ستر ہزار فرشتے ہدیے لے کر آتے ہیں اور اس نماز کے ادا کرنے والے کے سر پر قربان کرتے ہیں اور جب قبر سے اٹھتا ہےتو ستر پوشاکیں پہنا کر بہشت میں لے جاتے ہیں اور جو شخص اس نماز کو ظہر کی نماز کے بعد ادا کرے، اس میں قرآن مقرر نہیں تو خداوند تعالیٰ ہر رکعت کے بدلے اس کی ہزار حاجتیں روا کرتا ہے اور ہزار نیکی اس کے لئے لکھی جاتی ہے اور ایک سال کی عبادت کا ثواب اسے ملتا ہے، کتاب مجیب میں مشائخ طبقات لکھتے ہیں کہ دانا آدمی اس وقت تک نماز نہیں پڑھتا جب تک نماز میں پوری حضوری حاصل نہ ہو چنانچہ میں نے اپنے پیر خواجہ حاجی کے رسالے میں لکھا ہوا دیکھا ہے کہ خواجہ یوسف چشتی چاہتے کہ نماز کو شروع کریں تو ہزار دفعہ تکبیر کہہ کر بیٹھ جاتے جب مکمل حضوری حاصل ہوجاتی تب نماز شروع کرتے اور جب اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نسْتَعِیْنُ (ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں) پر پہنچتے تو دیر تک ٹھہرے رہتے۔
الغرض ان سے جب اس کا سبب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جس وقت مکمل حضوری حاصل ہوتی ہے پھر نماز شروع کرتا ہوں کیونکہ جس نماز میں مشاہدہ نہ ہو اس میں کیا نعمت ہوسکتی ہے۔
پھر فرمایا کہ ایک دفعہ خواجہ جنید بغدادی اور خواجہ شبلی بغداد سے باہر نکلے اور نماز کا وقت قریب آن پہنچا، دونوں بزرگ تازہ وضو کرنے میں مشغول ہوئے اور وضو کرنے کے بعد نماز ادا کرنے لگے، اتنے میں ایک شخص لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے جارہا تھا، جب اس نے ان کو دیکھا تو فوراً ایندھن کا گٹھا نیچے رکھ کر وضو میں مشغول ہوا، ان بزرگوں نے عقل سے معلوم کرلیا کہ یہ مرد خدا رسیدوں میں سے ہے، سب نے اس کو امام مقرر کیا، جب نماز شروع کی تو رکوع اور سجود میں دیر تک رہا، نماز سے فارغ ہوکر اس سے اس کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ دیر اس وجہ سے کرتا تھا کہ جب تک ایک تسبیح پڑھ کر لَبَّیکَ عَبْدِیْ (اے میرے بندے ! میں حاضر ہوں) نہ سن لیتا دوسری تسبیح نہ کرتا۔
پھر فرمایا کہ ایک دفعہ میں خانہ کعبہ کی طرف مجاوروں کے درمیان کچھ عرصہ گوشہ نشیں رہا، ان بزرگوں میں ایک بزرگ تھا جسے خواجہ عمر تسفی کہتے تھے، ایک دن وہ بزرگ امامت کر رہے تھے، فوراً حالت عجیب ہوگئی، سر مراقبہ میں لے گئے، کچھ دیر کے بعد جب سر اٹھایا تو آسمان کی طرف دیکھنے لگے اور اہل مجلس کو فرمایا کہ کہ سراو پر اٹھاؤ اور دیکھو، جونہی یہ فرمایا میں نے دیکھا، پھر فرمایا کہ کیا کہتے ہیں اور کیا دیکھتے ہیں، میں نے کہا کہ میں نے دیکھاکہ پہلے آسمان کے فرشتے رحمت کے تھال ہاتھ میں لے کر کھڑے ہیں اور ہونٹوں میں کچھ کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا جانتے ہو یہ کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا یہ کہتے ہیں کہ شیخ صاحب کی بندگی ہماری بندگی کی نسبت بہتر معلوم ہوتی ہے، جونہی میں نے یہ کہا اس نے سر اٹھایا اور مناجات کی کہ اے خداوند ! جو کچھ تیرے بندے سنتے ہیں اہل مجلس بھی اسے سنیں، فوراً غیبی فرشتے نے آواز دی، اے عزیزو ! یہ فرشتے جو لبوں کو ہلا رہے ہیں یہ کہتے ہیں کہ اے خداوند ! خواجہ تفسی کے مجاہدہ اور علم کی عزت کے صدقے میں ہمیں بخش، اس کے بعد فرمایا کہ یہ نعمت ہر مرتبے میں حاصل ہے لیکن مرد وہ ہے کہ اس میں کوشش کرے تاکہ اس مرتبے پر پہنچ جائے۔
پھر فرمایا کہ اے درویش ! بغداد میں ایک بزرگ تھا جو صاحبِ کشف و کرامات تھا، اس کو لوگوں نے پوچھا کہ آپ نماز کیوں نہیں ادا کرتے، فرمایا کہ اس میں تمہیں کچھ دخل نہیں لیکن جب تک دوست کا چہرہ نہیں دیکھ لیتا میں نہیں بیٹھتا، پھر فرمایا یہی سبب ہے کہ جو بعض مشائخ فرماتے ہیں کہ علم علم ہے جس کو عالم جانتے ہیں اور زہد زہد ہے جو کو زاہد جانتے ہیں اور یہ بھید ہے جس کو اہلِ معنیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
پھر فرمایا کہ جو شخص عصر کی نماز سے پہلے چار رکعت نماز ادا کرے، حضرت ابو دردا نے فرمایا ہے کہ اس کو ہر رکعت کے بدلے بہشت میں ایک محل ملتا ہے اور وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے ساری عمر خداوند تعالیٰ کی عبادت میں بسر کی ہے جو شخص مغرب اور عشا کے درمیان چار رکعت نماز ادا کرے وہ بہشت میں جاتاہے اور مصیبتوں سے امن میں ہوتا ہے اور ہر رکعت کے بدلے پیغمبری کا ثواب ملتا ہے جو شخص عشا کے بعد چار رکعت نماز ادا کرے بغیر حساب کے بہشت میں جائے گا اور یہ نماز سوائے خدا کے دوست کے اور کوئی ادا نہیں کرتا، پھر فرمایا کہ جو شخص نماز زیادہ کرتا ہے وہ حساب میں بہت زیادہ رہتا ہے اور جو بدی کرتاہے نیکی زیادہ ہوتی ہے۔
پھر فرمایا کہ مومن کو منافق اور لعنتی کے سوا اور کوئی نہیں ستاتا، جو نہی خواجہ صاحب نے ان فوائد کو ختم کیا، خلقت اور دعاگو واپس چلے آئے۔
الحمدللہ علیٰ ذلک
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.