Sufinama

فوائدالسالکین، پہلی مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

فوائدالسالکین، پہلی مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

MORE BYقطب الدین بختیار کاکی

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات :- قطب الدین بختیار کاکی جامع :- بابا فریدالدین مسسعود گنجِ شکر

    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    الحمدللہ رب العلمین والعاقبۃ للمتقین والصلوٰۃ علیٰ رسولہ محمد وآلہ اجمعین۔

    واضح رہے کہ یہ اسرارالٰہی کا سلوک اور لا انتہا انوار کے فوائد مشائخوں کے سلطان، حقیقت کی دلیل، بزرگ شیخ، پرہیز گاروں کے رئیس، اہل جہاں کے امام، اؤلیاوں کے چراغ، صوفیوں کے سرتاج، قطب الحق والدین بختیار اوشی خاندان کے تقویٰ اور مبارک ذات کو ہمیشہ رکھے، آپ کی زبان گوہر بار اور الفاظ دربار سے سنے ہوئے لکھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس مجموعہ میں سالکین کے فوائد لکھے جاویں گے، اس کے بعد فقیر حقیر مسعود اجودھنی جوکہ درویشوں کا غلام بلکہ ان کی خاک پا ہے یوں عرض کرتا ہے کہ جب دوسری ماہ رمضان 584 ہجری کو پابوسی کا شرف حاصل ہوا تو اسی وقت چار ترکی کلاہ جو آپ پہنے ہوئے تھے، اس دعاگو کے سر پر رکھی اور نہایت شفقت و مہربانی میرے حال پر فرمائی۔

    قاضی حمیدالدین ناگوری، مولانا شمس الدین ترک، خواجہ محمود، مولانا علاؤالدین کرمانی، سید نورالدین غزنوی، شیخ نظام الدین ابوالمؤید اور کئی بزرگ حاضر تھے، اؤلیا کی کشف و کرامات کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک سے فرمایا کہ شیخ میں اس قدر دل کی قوت اور ضمیر کی صحبت ہونی چاہئےکہ جب کوئی شخص اس کے پاس بیعت ہونے کے لئے جائے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی قوت باطنی سے اس شخص کے سینے کے زنگار کو جو دنیاوی آلائشوں سے آلودہ ہو صیقل کرے تاکہ کھوٹ، دغا فریب، حسد، برائی اور دنیاوی آلائشوں سے کوئی کدورت بھی اس کے سینے میں نہ رہے، اس کے بعد اس کا ہاتھ پکڑ کر معرفت کے بھیدوں سے واقف کردے اگر پیر کو اس قدر قوت حاصل نہ ہو تو تحقیق جان کہ پیر اور مرید دونوں گمراہی کے جنگل میں سرگرداں ہوں گے۔

    اس موقع پر آپ نے فرمایا کہ کتاب اسرارالعارفین میں خواجہ شبلی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں بدخشاں کی طرف سفر کر رہا تھا کہ ایک بزرگ کو دیکھا جس کی بزرگی کی صفت بیان نہیں ہوسکتی، میں نے اسے سلام کیا، اس نے فرمایا کہ بیٹھ جائیں، میں بیٹھ گیا چند روز میں اس کی خدمت میں رہا، افطار کے وقت جو کی دو روٹیاں عالم غیب سے مل جاتیں، ایک سے وہ بزرگ روزہ افطار کرتا اور ایک مجھے دیتا۔

    الغرض ! اس بزرگ نے والیٔ بدخشاں کو فرمایا کہ میرے لئے خانقاہیں تیار کرا، والیٔ بدخشاں نے شیخ کے حکم کے بموجب چند روز میں خانقاہ تیار کرا کے عرض کیا کہ جناب ! خانقاہیں تیار ہوچکی ہیں، تب اس بزرگ نے فرمایا کہ ہر روز بازار سے ایک کتھک خرید لاؤ ! انہوں نے اسی طرح کیا جب وہ بازار سے خرید لاتے تو وہ بزرگ اس کتھک کا ہاتھ پکڑ کر سجادے پر بٹھا دیتا اور کہتا کہ میں نے اسے خدا رسیدہ کردیا، آخر کار وہ کتھک ایسے ہوئے کہ ہر ایک ان میں سے پانی پر چل سکتا تھا اور جس شخص کو وہ کتھک دعا دیتے ٹھیک اسی طرح ظہور میں آتا، خواجہ شبلی فرماتے ہیں کہ مجھے ان کتھکوں کی کشف و کرامات سے حیرانی ہوئی تو اس بزرگ نے فرمایا اے شبلی سجادے پر بیٹھنا اور بیعت کرنا اس شخص کے لئے مناسب ہے جس میں قوت ہو کہ دوسرے کو صاحب سجادہ کرسکے اور اگر ولایت کی قوت نہ ہو تو وہ شیخ نہیں ہوتا بلکہ وہ اہل سلوک کے نزدیک محض مدعی اور دروغ گو ہے۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ اہل سلوک اپنی خصلتوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ آدمی کی کمالیت ان چار چیزوں یعنی کم کھانے، کم سونے، کم بولنے اور خلقت سے کم میل جول کرنے میں ہے۔

    فرمایا کہ غزنی میں ایک درویش تھا جو ہر روز تجرید میں صبر کرتا، اگر دن کے وقت کوئی چیز زائد اسے مل جاتی تو رات تک ایک پیسہ بھی پاس نہ رکھتا تھا جو چھوٹے بڑے دولت مند یا درویش اس کے پاس آتے وہ محروم نہ جاتے چنانچہ اگر کوئی بھوکا آتا تو اسے کھانا کھلاتا اور اگر کوئی ننگا آتا تو اپنے بدن کے کپڑے اتار کر اسے پہناتا وہ درویش اور دعاگو ایک ہی جگہ پر رہتے تھے، اس کو میں نے یہ کہتے سنا کہ چالیس سال میں نے مجاہدے اور بندگی میں صرف کئے لیکن کوئی روشنی اپنے آپ میں نہ پائی، جب سے میں نے چار مذکورہ بالا چیزیں کیں تب سے روشنی اس قدر حاصل ہوئی کہ اگر کسی وقت آسمان کی طرف دیکھتا ہوں تو عرش عظیم تک کوئی پردہ نہیں رہتا اور اگر زمین کی طرف نگاہ کرتا ہوں تو سطح زمین سے لے کر تحت الثریٰ تک جو کچھ اس میں ہے سب دکھائی دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج تیس سال کا عرصہ ہونے کو ہےکہ میں لب بند کئے ہوئے بیٹھا ہوں پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ اے درویش ! جب تک تو کم نہ بولے گا اور لوگوں سے میل جول کم نہ کرے گا، دویشی کا جو ہر ہرگز تجھ میں پیدا نہ ہوگا کیونکہ درویش لوگوں کا وہ گروہ ہے جس نے اپنے لئے نیدب حرام کی ہے اور بات کرنے میں زبان گونگی بنالی ہے اور عمدہ کھانے کو مٹی میں ملا دیا ہے اور لوگوں کی صحت کو زہر یلے سانپ کی طرح خیال کیا ہے تب کہیں قرب الٰہی حاصل کیا ہے۔

    فرمایا کہ اگر درویش عمدہ لباس پہنے یعنی خلقت کے دکھاوے کے لئے تو ٹھیک جانو کہ وہ درویش نہیں بلکہ راہ سلوک کا راہزن ہے اور جو درویش نفس کی خواہش کے مطابق عمدہ کھانا پیٹ بھر کر کھائے تو ینیھ جانو کہ وہ بھی راہ سلوک میں دروغ گو اور جھوٹا مدعی اور خود پرست ہے اور جو درویش کہ دولتمند کی ہم نشینی کرتا ہے اسے درویش نہ خیال کرو بلکہ وہ طریقت کا مرتد ہے اور جو درویش نفسانی خواہش کے مطابق خوب دل کھول کر سوتا ہے یقین جانو کہ اس میں کوئی نعمت نہیں۔

    فرمایا کہ میں ایک دفعہ ایک دریا کی طرف سیر کر رہا تھا، ایک بزرگ اور مالدار درویش کو دیکھا لیکن ساتھ ہی اسے مجاہدے میں یہاں تک پایا کہ اس کے وجود مبارک پر ہڈیاں اور چمڑا بھی نہیں رہا تھا، الغرض اس درویش کی یہ رسم تھی کہ جب نماز چاشت ادا کرتا اور سجادے پر بیٹھتا تو اس کے دستر خوان پر تقریباً اڑھائی من طعام ہوتا، چاشت سے ظہر کی نماز تک جو شخص آتا کھانا کھا کر چلا جاتا، اگر کوئی ننگا ہوتا تو اسے حجرے میں لے جاکر کپڑا پہناتا اور جب طعام ختم ہوجاتا اور کوئی مسکین اور عاجز آجاتا تو مصلیٰ کے نیچے ہاتھ ڈال کر جو کچھ اس کا نصیب ہوتا اسے دے دیتا، الغرض دعاگو چند روز اس بزرگوار کی خدمت میں رہا جو نہی کہ افطار کا وقت ہوتا چار کھجوریں عالم غیب سے پہنچ جاتیں، ان میں سے دو مجھے دیتا اور دو خود کھا لیتا، اس کے بعد کہتا کہ جب تک درویش کم نہ کھائے اور کم نہ سوئے ا ور کم نہ بولے اور لوگوں کے میل جول کو ترک نہ کرے کسی مرتبے کو نہیں پہنچتا۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ اے درویش ! مہتر حضرت عیسی باجود اتنی درویشی اور قرب کے چوتھے آسمان پر پہنچے تو حکم ہوا کہ اسے چوتھے ہی آسمان پر رہنے دو کیونکہ دنیاوی آلائش اس میں ابھی باقی ہے جب مہتر حضرت عیسیٰ نے تلاش کیا تو ایک لکڑی کا پیالہ، سوئی اور خرقہ موجود پایا، آواز دی کہ اسے میں کیا کروں؟ حکم ہوا کہ تونے اپنے پاؤں پر اپنے ہاتھ سے کلہاڑی ماری ہے جو پیالہ سوئی باہر نہیں پھیکپ آیا، اب اسی جگہ رہو، بس اے درویش ! وہ اسباب جو بالکل ہیچ ہیں اس کے بدلے میں حضرت عیسیٰ چوتھے ہی آسمان میں رکھے گئے تو یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ یہ انسان باوجود اتنی آلائشوں کے بارگاہ الٰہی میں بار یاب ہو، فرمایا کہ درویش کو مجرد ہونا چاہئے اور اسے ایک ملک سے دوسرے ملک میں سیر کرنی چاہئے۔

    فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک درویش صاحب تفکر تھا وہ ہمیشہ حیرانی میں رہا کرتا تھا جب اس سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ جو عالم تحیر میں مستغرق ہیں اس میں کیا حکمت ہے، اس نے کہا جہاں تک میں نگاہ کرتا ہوں جب ایک ملک سے گزرتا ہوں تو اس سے سو گنے اور ملک دیکھتا ہوں اور جب میں انہیں دیکھتا ہوں تو ایک سے ایک نہیں ملتا، اس واسطے میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں جاتا ہوں اور انہیں خیالات میں مستغرق رہتا ہوں، خواجہ قطب الدین ادام اللہ تقواہٗ آنسو بھر لائے اور رو پڑے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے ایک درویش سے یہ مثنوی سنی تھی۔

    ہر آں ملکے کہ واپس می گزارم

    دو صد ملکے دگر درپیش دارم

    ترجمہ : وہ ملک جو پیچھے چھوڑ آتا ہوں ویسے ہی دو سو اور ملک میرے آگے آتے ہیں۔

    آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ اہل سلوک اور متحیروں کا گروہ یہ فرماتا ہےکہ درویش کو سلوک کی راہ میں ہر روز ایک لاکھ ملک سے گزرنا چاہئے اور پھر قدم آگے بڑھانا چاہئے، پس جسے عالم غیب سے کچھ حاصل نہیں ہے اس کی نگاہ خود درویش ہے، اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ جو اؤلیا اسرار کو ظاہر کرتے ہیں وہ شوق کے غلبہ میں ہوتے ہیں اور اسی غلبہ کی وجہ سےکہہ بیٹھتے ہیں اور بعض ایسے کامل ہیں جو حال میں بھی کسی قسم کا بھید ظاہر نہیں کرتے، پس اس راہ میں اہل سلوک کا حوصلہ وسیع ہونا چاہئے تاکہ اسرار الٰہی کو پوشیدہ رکھ سکیں اس واسطےکہ یہ بھید دوست کے بھید ہیں، پس جو کامل حال ہے وہ کبھی بھیدوں کو ظاہر نہیں کرتا۔

    اسی موقع پر آپ نےفرمایا کہ میں کئی سال تک شیخ معین الدین حسن سنجری کی خدمت میں رہا لیکن یہ کبھی نہیں دیکھا کہ آپ نے دوست کا بھید ظاہر کیا ہو اور نہ ان انوار کو ذرہ بھر بھی ظاہر کیا جو ان پر نازل ہوتے، ایک روز فقیر کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا اے فرید ! کامل حال وہ شخص ہیں جو دوست کی ہدایت میں مکاشفہ نہیں کرتے تاکہ دوسرے اس سے واقف نہ ہوجائیں۔

    آپ نے فرمایا اے فرید ! تو نے دیکھا کہ اگر منصور حلاج کامل ہوتا تو ہر گز دوست کا بھید ظاہر نہ کرتا لیکن چونکہ کامل نہیں تھا، اس واسطے دوست کے اسرار کے شربت کا ذرہ بھر اس نے ظاہر کردیا اور جان سے مارا گیا۔

    آپ نے فرمایا کہ جب خواجہ جنید بغدادی عالم سکر میں ہوتے تو سوائے ایک بات کے اور کچھ نہ فرماتے وہ یہ تھی کہ اس عاشق پر ہزار افسوس ہے جو اللہ تعالیٰ کی دوستی کا دم مارےاور جو اسرار الٰہی اس پر نازل ہوں ان کو فوراً دوسروں کے سامنے ظاہر کردے۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں نے شیخ معین الدین حسن سنجری کی زبانی سنا ہےکہ ایک بزرگ نے سوسال سے کچھ اوپر تک اللہ تعالیٰ بزرگ و بلند کی عبادت کی اور جو کچھ مجاہدے کا حق تھا ادا کیا، اس کے بعد اسرارالٰہی سے ایک بھید اس پر ظاہر کیا گیا، چونکہ وہ بزرگ تنگ حوصلہ تھا، اس لئے اس کی تاب نہ لاکر اسے ظاہر کردیا، دوسرے روز جو نعمت اسے عطا کی گئی تھی سب چھین لی گئی اور وہ یوانہ ہوگیا کہ یہ کیا ہوا، غیب سے آواز آئی کہ اے خواجہ ! اگر تو اس بھید کو ظاہر نہ کرتا تو دوسرے بھیدوں کے لائق بنتا لیکن جب ہم نے دیکھا کہ تو ابھی ساتویں پردہ میں ہے اس لئے ہم نے اپنی نعمت تجھ سے چھین کر دوسرے کو دے دی۔

    خواجہ قطب الاسلام دام تقواہٗ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ اے فرید ! اس راہ میں اہل سلوک کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو کہ اسرار کے لاکھوں دریاپی جاتے ہیں اور انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ ہم نے کیا پیا ہے بلکہ پھر بھی 'ھل من مزید' کی فریاد کرتے ہیں۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ ایک بزرگ نے کسی دوسرے بزرگ کو خط لکھا کہ وہ شخص کیسا ہے جو محبت کے ایک ہی پیالے سے مست ہوجائے اور اسرارالٰہی ظاہر کردے، اس بزرگ نے جواب میں لکھا کہ وہ بہت ہی کم ہمت اور تنگ حوصلہ ہے لیکن یہاں ایسےمرد ہیں کہ ازل اور ابد کے دریا اور دوست کے اسرار اور محبت کے پیالے پئے ہیں اور آج قریباً پچاس سال کا عرصہ ہونے کو آیا ہےکہ 'ھل من مزید 'کی فریاد کرتے ہیں، یہ کیا بات ہے جو تونے کہی ہے، میں تجھے منع کرتا ہوں کہ یہ بات نہ کہنا کہ اہل سلوک کے پیر جو اسرار ظاہر کر دیتے ہیں کچھ حاصل نہیں کرتے کیونکہ اس سے ہمیں شرم آتی ہے۔

    اس کے بعد فرمایا کہ جب تک درویش سب سے یگانہ نہ بن جائے اور ہر وقت مجردنہ رہے اور کوئی دنیا کی آلائش باقی نہ رہے تو وہ ہر گز قرب کے مقام کو نہیں پہنچتا۔

    پھر اسی موقع پر فرمایا کہ خواجہ بایزید بسطامی ستر سال کے بعد مقام قرب پر پہنچے تو حکم ہوا کہ اس کو واپس کردو کیونکہ دنیاوی آلائش اس میں ابھی باقی ہے، خواجہ بایزید نے فوراً اپنی تلاش کی، پرانی پوستیں اور ٹوٹا ہوا کوزہ اپنے ہمراہ پایا، اسی سبب سے بار یاب نہ ہوئے، جب ایسے بزرگوں کی یہ حالت ہےتو تم جیسے کب بار یاب ہوسکتے ہیں جن میں اتنی دنیاوی آلائشیں پائی جاتی ہیں، پس اسے بھائی درویشی کی راہ پر چلنا اور بات ہے اور ذخیرہ جمع کرنا اور بات ہے، یا تو درویش بن یا ذخیرہ جمع کرنے والا، اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ جب درویش کامل ہوجاتا ہے تو جو کچھ کہتا ہے وہی ہوتا ہے اور ذرہ بھر بھی اس بات میں فرق نہیں آتا۔

    پھر فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور قاضی حمیدالدین ناگوری جو اس دعاگو کے یار غار ہیں، دریا کی طرف سیر کر رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کے عجائبات کا نظارہ کر رہے تھے جس کی صفت بیان نہیں ہوسکتی، دریا کے نزدیک ایک مقام تھا جہاں پر ہم دونوں بیٹھ گئے اور بھوک نے ہم دونوں کو لاچار کردیا، بیابان میں طعام کہاں سے مل سکتا تھا، الغرض کچھ وقت کے بعد ایک بکری منہ میں دو روٹیاں لئے ہوئے آئی اور روٹیاں ہمارے سامنے رکھ کر واپس چلی گئی، ہم نے دو روٹیاں کھالیں، اس کے بعد ہم نے آپ میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں روٹیاں اپنے خزانہ غیب سے عطا کی ہیں، وہ بکری نہیں تھی بلکہ وہ مردان غیب سے کوئی ہوگا، ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ ایک بچھو ایک بڑے اونٹ کے قد کا ظاہرہوا، اسی طرح جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے اور دوڑتا ہوا آیا جونہی کہ دریا کے پاس پہنچا اپنے تئیں بے دھڑک پانی میں پھینک دیا، میں نے قاضی کی طرف دیکھا اور قاضی نے میری طرف، ہم دونوں نے کہا کہ اس میں کچھ بھید ہے جو بچھو جلدی جلدی آرہا ہے، مناسب ہے کہ ہم بھی اس کے پیچھے چل کر دیکھیں لیکن دریا کے اس کنارے پر کوئی کشتی موجود نہ تھی جس پر سوار ہوکر ہم پار جاتے جب عاجز ہوگئے تو دعا کی اے پروردگار ! اگر ہم درویشی میں مکمل ہوچکے ہیں تو ہمیں دریا راستہ دے دے تاکہ ہم چل کر اس بچھو کا تماشا دیکھیں کہ کہاں جاتا ہے جونہی یہ مناجات ہم نے کی اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ دریا پھٹ گیا اور خشک زمین نکل آئی، ہم دونوں پار گئے وہ بچھو ہمارے آگے تھا، ہم پیچھے پیچھےچل دیئے، ہم ایک درخت کے پاس پہنچے جہاں ایک آدمی سویا پڑا تھا اور درخت سے ایک بڑا سانپ نیچے اتر رہا تھا تاکہ اس شخص کو ہلاک کرے، اس بچھو نے سانپ کو ڈسا اور ہلاک کردیا، ہمارے سامنے سے وہ بچھو غائب ہوگیا اور سانپ اس آدمی کے پاس ہی مردہ ہو کر گرپڑا، ہم نے نزدیک جاکر سانپ کو دیکھا جو تقریباً اڑھائی من وزن میں ہوگا، ہم نے کہا جب وہ آدمی جاگے تو ہم دریافت کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو اسے بچایا تو یہ ضرور کوئی بزرگ ہوگا، جب ہم اس کے پاس گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ شراب پی کر پڑا ہے اور قے کی ہوئی ہے، ہم از حد شرمندہ ہوئے اور کہا کہ کاش ہم نہ ہی آتے تاکہ اس طرح کی حالت نہ دیکھتے، اس کے بعد ہم دونوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے شراب خور اور نافرمان کو بچایا، ابھی یہ خیال پورے طورپر ہمارے دل میں نہ گزرا تھا کہ غیب سے آواز آئی کہ اے عزیزو ! اگر ہم صرف پرہیزگاروں اور صالح آدمیوں کو بچائیں تو گنہگاروں اور مفسدوں کو کون بچائے گا؟ ابھی ہم اسی گفتگو میں تھے کہ وہ مرد جاگ پڑا اور سانپ کو پاس مرا ہوا دیکھاتو بہت ہی حیران ہوا اور اس فعل سے توبہ کیا، کہتے ہیں کہ جوان خدارسیدہ بن گیا اور ستر حج ننگے پاؤں کئے۔

    اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ جب لطف الٰہی کی نسیم چلتی ہے تو لاکھوں شرابیوں کو صاحبِ سجادہ بنادیتی ہے اور بخش دیتی ہے اور خدا نہ کرے اگر قہر کی ہوا چلے تو لاکھوں سجادہ نشینوں کو راندۂ درگاہ بنادیتی ہے اور سب کو شراب خانوں میں دھکیل دیتی ہے، پس اسے بھائی ! اس راہ میں بے غم نہیں ہونا چاہئے، اس واسطے کہ اس راہ میں کامل سلوک والے دن رات ہر وقت فراق کے ڈر اور خوف سے حیران اور غمگین رہتے ہیں کیونکہ کسی کو معلوم نہیں کہ کس طرح ہوگا۔

    اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ اگر لعنتی شیطان اپنے انجام کو جانتا تو مہتر آدم صلوٰۃ اللہ کو سجدہ کرنے سے انکا نہ کرتا اور بے شبہ سجدہ کرتا لیکن چونکہ اس لعنتی کو انجام معلوم نہ تھا اور اپنی طاعت پر غرور تھا اس لئے یہ کہہ دیا کہ میں ہرگز خاکی کو سجدہ نہ کروں گا، اس لئے وہ بلا شک و شبہ لعنتی ہوگیا اور اس کی سب طاعتیں ضائع اور اکارت گئیں اور واپس اس کے منہ پر ماری گئیں۔

    اسی موقع کے مناسب آپ نے فرمایا کہ میں ایک مرتبہ ایک شہر میں گیا، اہل اصلاح کے ایک گروہ کو دیکھا کہ بیس بیس کی ٹولی عالم تحیر میں کھڑی ہے اور ان کی آنکھیں آسمان کی طر ف لگ رہی ہیں، جب نماز کا وقت ہوتا تو نماز ادا کر تے پھر عالم تحیر میں مشغول ہوجاتے، میں بھی کچھ مدت ان کے پاس رہا، ایک دن ان میں سے چند آدمی عالم صحو میں آئے تواس دعا گو نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کب سے اس عالم میں مشغول ہیں، انہوں نے کہا کہ تقریباً ساٹھ یا ستر سال کا عرصہ گزر چکا ہے کہ ہم لعنتی شیطان کے قصے کے خیال میں ہیں کہ اس نے چھ لاکھ چھتیس ہزار سال اللہ تعالیٰ کی عبادت کی لیکن جب مہتر حضرت آدم کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تو مردود ہوگیا، اس خوف اور حیرت سے ہم کانپ رہے ہیں اور اس عالم تحیر میں پڑے ہیں اور اسی سوچ بچار میں پڑے ہیں، ہمیں یہ معلوم نہیں کہ انجام کیا ہوگا؟ اس خوف سے خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ تقواہٗ رو پڑے اور زبان مبارک سے فرمایا کہ کامل مردوں کا حال یوں ہے کہ وہ خوف الٰہی کے مارے حیران رہتے ہیں، مجھے معلوم نہیں کہ ہم کس گروہ میں ہیں جونہی کہ خواجہ صاحب نے ان فوائد کو ختم کیا آپ اٹھ کر عالم تحیر میں مشغول ہوئے۔

    الحمدللہ علی ذالک۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے