فوائدالسالکین، چھٹی مجلس :-
دلچسپ معلومات
ملفوظات : قطب الدین بختیار کاکی جامع : بابا فرید
جمعہ کے روز ماہ شوال 584 ہجری کو قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔
اہلِ صفا حاضر تھے اور حوض شمسی کے پانی کا تذکرہ ہو رہا تھا، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ جب شمس نے چاہا کہ دہلی میں حوض بنائے تو ایک روز اپنے امیروں وزیروں کے ہمراہ حوض کے لئے جگہ تلاش کرنے کے لئے نکلا جہاں پر اب حوض واقع ہے جب وہاں پہنچا تو کھڑا ہوگیا اور کہا کہ یہ زمین حوض کے لئے بہتر ہے چونکہ وہ خدا رسیدہ مرد تھا اسی نیت سے اس رات مصلے پر وہیں سوگیا، خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ اس چبوترے کے نزدیک جو حوض میں واقع ہے ایک مرد نہایت خوبصورت اور وجیہہ جس کی صفت بیان نہیں ہوسکتی گھوڑے پر سوار ہے اور چند آدمی اس کے ہمراہ ہیں جونہی کہ ان کی نظر مجھ پر پڑی مجھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ تیری کیا نیت ہے، میں نے عرض کیا کہ میری نیت یہاں حوض بنوانے کی ہے، اس گفتگو میں ایک شخص نے جو نزدیک ہی کھڑا تھا آہستہ سے میرے کان میں کہہ دیا کہ اے شمس ! یہ رسول خدا ہیں تو درخواست کرتا کہ تیری مراد حاصل ہو چونکہ مجھے اس وقت حوض کا خیال تھا، میں نے وہی عرض کیا اور آپ کے مبارک قدموں پر گر پڑا پھر میں نے دست بستہ عرض کیا تو آنحضرت نے جہاں پر چبوترہ واقع ہے، دست مبارک زمین پر مارا اور فرمایا اے شمس ! اس جگہ حوض کھدوانا کہ یہاں کے حوض کا پانی ایسا لذیذ ہوگا کہ کسی جگہ کا پانی اس کا مقابلہ نہ کرسکے گا، ہم اسی گفتگو میں تھے کہ میری نیند کھل گئی، اس صبح اٹھ کر ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ جہاں پر آنحضرت کے گھوڑے نے سم مارا تھا، وہاں سے پانی جاری ہے، اسی جگہ ٹھہر گیا اور حوض بنوایا جو شخص وہاں آکر پانی پیتا قسم کھا کر یہی کہتا کہ اگر لاکھوں شیرینیاں اکٹھی کرکے کھائی جائیں تو بھی اس پانی جیسی لذت نہیں آتی، خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک سے فرمایا کہ اس پانی کی شیرینی صرف آنحضرت کے قدم مبارک کی برکت سے ہے اور دوسرے اس حوض کے مبارک ہونے کی یہ ہے کہ اس کے گرد کئی بزرگ لیٹے پڑے ہیں اور نہ معلوم اور کتنے لیٹیں گے پھر خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے آب دیدہ ہوکر فرمایا ہمیں امید ہے کہ ہم بھی اسی حوض کے نزدیک اپنا مسکن بنائیں گے پھر خواجہ صاحب نے شمس والی کی بابت فرمایا کہ وہ از حد صاحب اعتقاد تھا کسی نے اس کو سوئے نہیں دیکھا وہ راتوں کو جاگتا رہتا اور عالم تحیر میں کھڑا رہتا پھر فرمایا کہ اگر سو بھی جاتا تو وہ فوراً جاگ اٹھتا اور آپ ہی پانی لے کر وضو کرتا اور مصلیٰ پر جا بیٹھتا اور اپنے کسی نوکر کو نہ جگاتا اور یہ کہتا کہ میں آرام کرنے والوں کو تکلیف دوں پھر فرمایا کہ کئی رات وہ خرقہ پہنتا لیکن کسی کو اس کی خبر نہ کرتا لیکن ایک شخص جو اس کا ہمراز تھا اسے ہمراہ لے کر بہت سی تھیلیاں سونے کی بھر کر ہر مسلمان کے دروازے پر جاتا اور ہر ایک کا حال پوچھ کر ان کو بانٹ دیتا جب وہاں سے فارغ ہوتا تو مسجدوں اور خانقاہوں اور عبادت خانوں اور بازاروں میں گشت کرتا اور ان میں جو رہا کرتے تھے، ان کو کچھ نہ کچھ دیتا اور لاکھوں عذر کرتا اور ساتھ ہی یہ کہتا خبردار ! کسی کے آگے اس بات کا ذکر نہ کرنا جب دن نکلتا تو عام طور پر سب کو کہتا کہ ان مسلمانوں کو لاؤ جنہوں نے رات کو فاقہ کیا ہے، حکم کے بموجب وہ لائے جاتے تو ان کو ان کی احتیاج کے موافق دیتا اور ان سے قمر لیتا کہ جب کبھی تمہیں اناج وغیرہ کی ضرورت ہو یا کوئی تم پر ظلم کرے تو میرے پاس آؤ کہ میں تخت پر بیٹھا ہوا ہوں اور انصاف کی زنجیر میں نے دروازے پر لٹکائی ہوئی ہے، اس کو ہلاؤ اور میں تمہارا انصاف کروں گا تاکہ کہیں قیامت کو تم مجھ پر دعویٰ نہ کرو پھر خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے فرمایا کہ وہ یہ بات اس لئے کرتا تھا تاکہ ایسا کرنے سے وہ سبکدوش ہوجائے اور قیامت کے دن مخلصی پائےکہ میں نے تو کہہ دیا تھا تم خود نہ آئے۔
پھر آپ نے فرمایا کہ ایک روز اس نے آخر اس دعاگو کے قدم پکڑے، میں نے کہا تیری کیا حاجت ہے؟ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے سلطنت مجھے عطا فرمائی ہے اور سب کچھ ہے لیکن میری التماس یہ ہے کہ قیامت کو میرا حشر کس گروہ میں ہوگا اور پھر وہ واپس چلا گیا پھر فرمایا کہ وہ از حدنیک معاملہ تھا اور درویشوں کا تو غلام تھا کہ اس کا ذرہ بھر بھی ان کی محبت سے خالی نہ تھا۔
پھر فرمایا کہ ایک دفعہ میں بدایوں کی طرف سفر کر رہا تھا اور شمس والی بھی بدایوں میں تھا، ایک روز گیند کھیلنے کے لئے باہر گیا، ایک بوڑھے کمزور نے اس سے کچھ مانگا لیکن اسے کچھ نہ دیا جب آگے بڑھا تو ایک نوجوان ہٹے کٹے آدمی کو دیکھا تو تھیلی سے کچھ روپیہ نکال کر اسے دیا، آگے بڑھا تو امیروں وزیروں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ دیکھو ! اس بوڑھے نے مجھ سے مانگا لیکن میں نے اسے کچھ نہیں دیا اور اس نوجوان تندرست کو میں نے بغیر مانگے دے دیا یہ اس واسطے ہے تاکہ تمہیں معلوم ہوجائے کہ اگر میری مرضی ہوتی تو اس بڈھے کو دیتا جو لینے کا مستحق تھا لیکن جس کو دیتا ہے خدا دیتا ہے، میں درمیان میں کون ہوں جو کہوں میں نے اسے کچھ دیا اور اسے نہ دیا جو کچھ ہے سب اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے۔
اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ شیخ الاسلام دہلی نے میرے بھائی شیخ جلال الدین تبریزی پر یہ تہمت لگائی کہ دعویٰ تو درویشی کا کرتا ہے لیکن خیال اس کا امیری کی طرف ہے چنانچہ یہ خبر شمس والی نے بھی سن لی، اس نے شیخ جلال الدین کے روبرو کچھ نہ کہا، شیخ الاسلام دہلی کا اس میں کچھ خاص کام تھا، نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کو بلایا گیا اور شیخ جلال الدین کو کہلا بھیجا کہ اس دعویٰ کے لئے کوئی منصف ہونا چاہئے، شیخ الاسلام نے دہلی کہلا بھیجا کہ جس کو آپ منصف کریں پھر شیخ جلال الدین نے کہلا بھیجا شیخ بہاؤالدین ذکریا منصف رہے، شیخ الاسلام نے کہلا بھیجا کہ ان کو بلایا جائے چنانچہ دوسرے روز سارے بزرگ اکٹھے ہوئے اور شیخ جلال الدین بھی آئے اور معمولی صف میں بیٹھ گئے، شمس والی نے بہتیرا چاہا کہ شیخ جلال الدین آپ سے اوپر بیٹھیں لیکن شیخ جلال الدین نے فرمایا کہ اب دعویٰ کا مقام ہے، میرا اس وقت مقام یہی ہے، اس کے بعد شیخ الاسلام نے جلال الدین کے مناسب حال روایتیں اور باتیں بیان کیں، اسی اثنا میں شیخ بہاؤالدین ذکریا بھی آن پہنچے، سب لوگ حیران رہ گئے، ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ شیخ بہاؤالدین ذکریا کو کس نے خبر کی تھی اور وہ ملتان سے کب روانہ ہوئے اور کب یہاں پہنچے اور جب شیخ بہاؤالدین ذکریا وہاں آئے تو جہاں پر بزرگوں نے جوتیاں اتاری تھیں وہاں کھڑے ہوگئے اور شیخ جلال الدین کی نعلین مبارک کو پہچان کر زمین سے اٹھا لیا اور چوم کر سر آنکھوں پر رکھ لیا اورپھر آستین مبارک میں رکھ کر آئے اور سلام کہا اور شیخ جلال الدین تبریزی کی بزرگی میں کوئی کلام نہیں کیا کیونکہ جب بہاؤالدین جیسے منصف نے شیخ جلال الدین کی نعلین مبارک کو بوسہ دے کر آستین میں رکھ لیا، پس معلوم ہوگیا کہ وہ دعویٰ باطل ہے جو شیخ الاسلام دہلی نے شیخ جلال الدین پر کیا ہے اور یہ فعل کہ ان کی نیت میں نہیں ہے، شمس والی نے بہت ہی معذرت کی، الغرض شیخ جلال الدین اور شیخ بہاؤالدین دونوں واپس چلے گئے اور ندی کے کنارے آئے، رات اسی جگہ بسر کی جب دن چڑھا تو شیخ بہاؤالدین کو ملتان کی طرف وداع کیا اور شیخ جلال الدین (لکھنوتی) ہندوستان کوروانہ ہوگئے اور مدت تک زندہ رہے، الغرض ! بہت عرصہ نہ گزرنے پایا کہ شیخ الاسلام دہلی پیٹ کے درد میں مبتلا ہوئے اور اسی عارضہ میں انتقال فرمایا، انا للہ وانا الیہ راجعون۔
پھر دنیا کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی تو آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ سالک کے لئے دنیا سے بڑھ کر کوئی حجاب نہیں، اس واسطے کہ کوئی شخص اس وقت تک خدا رسیدہ نہیں ہوتا جب تک وہ دنیا میں مشغول رہتا ہے اور اہل سواک نے فرمایا ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان دنیا سے بڑھ کر اور کوئی حجاب نہیں، پس جو شخص دنیا میں مشغول ہوجائے وہ خدا سے باز رہتا ہے، لوگ جس قدر دنیا میں مشغول رہتے ہیں اسی قدر خدا کی طرف سے رہ جاتے ہیں اور اس سے جدا ہوتے ہیں پھر فرمایا کہ جب دنیا میں دنیا کی محبت رکھی گئی تو تمام فرشتوں نے اس بات پر زور دیا لیکن ابلیس لعین خوش ہوا اور کہا کہ حضرت آدم کے فرزندوں میں فساد کی بنیاد ڈالی گئی اس واسطے کہ اس مردار کی خاطر بھائی بھائی کو ہلاک کردے گا اور رشتہ دار قطع تعلق کرلیں گے اور کئی شہر خراب ہوجائیں گے اور آدمی ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے اور ایک دوسرے سے عداوت رکھیں گے اور ہلاک ہوجائیں گے اور دنیا برقرار رہے گی، اس دنیا کی محبت کو لعنتی شیطان نے بڑی تعظیم و تکریم سے سر آنکھوں پر رکھا، حکم ہوا اے عزازیل ! تونے یہ کیا کیا؟ کہ تونے دنیا کی محبت کو بڑے ادب کے ساتھ سر آنکھوں پر رکھا، اس نے کہا اے پروردگار ! دنیا کو میں نے اس واسطے سر آنکھوں پر رکھا ہے کہ جو شخص اسے دوست رکھے گا اور اس میں مشغول رہے گا وہ میرا پیرو ہوگا اور میں اسے اور بھی اس میں مشغول کردوں گا یہاں تک کہ اسے تمام طاعتوں اور عبادتوں اور نیکیوں سے باز رکھوں گا، پس وہ گنہگار میرا بن جائے گا اور میں اسے ہلاک کردوں گا اور اس کا مال دوسرے لوگ کھائیں گے اور وہ درمیان سے اٹھ جائے گا۔
پھر خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک سے فرمایا کہ دنیا کیسی بے وفا اور مکار ہے پھر فرمایا کہ دنیا سب کی دوست ہے لیکن درویشوں کی نہیں کیونکہ انہوں نے اسے رد کردیا ہے اور اپنے آپ سے دور کردیا ہے پھر فرمایا کہ خواجہ یوسف چشتی فرمایا کرتے تھے کہ دین محمدی میں ایسے مردان خدا بھی ہوں گے کہ دنیا ہزاروں مرتبہ درویشوں کے دروازے پر آئے گی اور کہے گی کہ اے خواجگان ! اگر آپ مجھے قبول نہیں کرتے تو کسی وقت بڑھیا کی طرف نظر ہی ڈال لیا کرو لیکن وہ فرمائیں گے کہ جا چلی جا، اگر دوسری دفعہ آئے گی تو ہلاک ہوجائے گی۔
اس کے بعد یہ حکایت بیان فرمائی کہ مہتر حضرت عیسیٰ نے ایک سیاہ رنگ بد صورت بڑھیا عورت کو دیکھا اور اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں بوڑھی دنیا ہوں، مہتر حضرت عیسیٰ نے پوچھا کہ تونے کتنے شوہر کئے ہیں؟ اس نے کہا بے حد اور بے شمار اگر ان کی گنتی ہو تو شمار کروں، مہتر عیسیٰ نے پوچھا کہ ان میں سے کسی خاوند نے تجھے طلاق بھی دی؟ اس نے کہا کہ میں نے سب کو قتل کیا ہے پھر شیخ الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ زار زار روئے اور فرمایا، درویشی بڑا آرام ہے اور دنیای آفتوں سے محفوظ ہے لیکن درویشی کے کام میں سختی بہت ہے جس رات درویش کو فاقہ ہوتا ہے وہ اس کا معراج ہوتا ہے اس واسطے کہ اہل صفا اور تصوف کا قول ہے کہ معراج الفقر فی لیلۃ الفاقۃ یعنی فقر کا معراج فاقے کی رات ہوتا ہے، پس کوئی نعمت درویشی کا فاقہ درویشی کے اختیار میں رکھا گیا ہے کیونکہ دنیا اس کو دی گئی ہے کہ جس طرح چاہے اس کو خرچ کرے، پس وہ اپنے واسطے بھی خرچ کرسکتا ہے لیکن ایسا نہیں کرتا بلکہ دوسروں کو دیتا ہے اور خود فاقہ کشی کرتا ہے، اس سے اس کا کام ترقی پکڑتا ہے۔
پھر خواجہ قطب الاسلام نے ان فوائد کو ختم کیا تو اٹھ کر آسمان کی طرف دیکھنے لگ گئے اور عالم تحیر میں مشغول ہوگئے اور دعاگو واپس آکر اپنی کٹیا میں یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔
الحمدللہ علی ذالک۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.