Sufinama

فوائدالسالکین، چوتھی مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

فوائدالسالکین، چوتھی مجلس :-

قطب الدین بختیار کاکی

MORE BYقطب الدین بختیار کاکی

    دلچسپ معلومات

    ملفوظات : قطب الدین بختیار کاکی جامع : بابا فرید

    سوموار کے روز ماہ ذیقدہ 584 ہجری کو قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا۔

    اہلِ صفا اور درویشوں کا ایک گروہ مولانا علاؤالدین کرمانی اور شیخ محمود موزہ دوز حاضر خدمت تھے، درویشوں کی تکبیر کہنے کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی کہ درویش لوگ جو گلی کوچوں میں اور دروازوں اور بازاروں میں تکبیر کہتے ہیں، ان کی اصلیت کیا ہے، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ اس طرح پر تکبیر کہنی کہیں نہیں آئی جیسا کہ تکبیر کے موقع پر کہتے ہیں کیونکہ تکبیر اصل میں شکر کے موقع پر کہی جاتی ہے جب انسان کو کوئی دنیاوی یا دینی نعمت حاصل ہو تو نعمت کی زیادتی کے لئے شکر کرتا ہے ایسے موقع پر تکبیر جائز ہے۔

    پھر فرمایا کہ ایک روز میں بغداد میں شیخ شہاب الدین سہروردی کی مجلس میں حاضر تھا جو تشاغل میں نے ان میں دیکھی وہ میں نے اپنی ساری سیروسیاحت میں کہیں نہیں دیکھی، الغرض ایک خرقہ پوش درویش آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا، شیخ شہاب الدین کو تکبیر کا بیان کچھ دشوار سا معلوم ہوا اور یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ رسول اللہ بیٹھے ہوئے تھے اور اصحاب آپ کے گردا گرد حلقہ باندھے بیٹھے ہوئے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ علیہ وسلم نے یاروں کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن چوتھائی بہشت تمہیں ملے گا اور باقی تین چوتھائی دوسری امتوں کو، فوراً امیرالمومین حضرت صدیق اکبر اور دوسرے یاروں نے اللہ اکبر کہا اس واسطے کہ نعمت زیادہ ہو، دوسری مرتبہ پھر رسول اللہ نے فرمایا کہ تیسرا حصہ بہشت کا تمہیں ملے گا اور باقی دو تہائی دوسری امتوں کو، جونہی کہ آنحضرت نےفرمایا امیرالمومنین حضرت عمر فاروق اور حضرت علی اور باقی اصحاب نے اٹھ کر تکبیر کہی اس واسطے کہ شکر کرنے سے نعمت اور زیادہ ہوجائے، تیسری مرتبہ پھر آنحضرت نے فرمایا کہ نصف بہشت تمہیں ملے گا اور باقی نصف دوسری امتوں کو، امیرالمومنین حضرت عثمان ذوالنورین اور حضرت علی مرتضیٰ اور باقی سب یار کھڑے ہوئے اور اس نعمت کا شکر بجا لائے تاکہ اور زیادہ ہو، چوتھی مرتبہ آنحضرت نے فرمایا کہ بہشت میں سب سے پہلے میری امت داخل ہوگی اور بعد میں دوسری امتیں پھر سب یاروں نے اٹھ کر شکریہ ادا کیا پھر شیخ شہاب الدین نےفرمایا کہ فقیر لوگ جو چار تکبیریں کہتے ہیں اسی وجہ سے ہیں، پس ہر موقع پر تکبیر نہیں کہنی چاہئے۔

    اس کےبعد اس بارے میں گفتگو شروع ہوئی کہ اگر مرید نفل کی نماز میں مشغول ہو اور اس کا پیر اس کو آواز دے، اگر وہ پیر کی بات کا جواب دینے کے لئے نفل کی نماز کو ترک کر دے تو اس کی بابت آپ کی کیا رائے ہے؟ خواجہ قطب الاسلام نے زبان مبارک سے فرمایا کہ یہ بہتر ہے کہ وہ نماز ترک کرکے اپنے پیر کی بات کا جواب دے کیونکہ یہ نفل نماز سے افضل ہے اور اس میں بہت بڑا ثواب ہے۔

    اسی موقع کے مناسب آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نفل کی نماز میں مشغول تھا، شیخ معین الدین ادام اللہ برکاتہٗ نے مجھے آواز دی، میں نے فوراً نماز ترک کی اور لبیک کہا، آپ نے فرمایا ادھر آؤ ! جب میں حاضر ہوا تو آپ نے پوچھا کہ تو کیا کر رہا ہے؟ میں نے عرض کیاکہ میں نفل نماز ادا کر رہا تھا، آپ کی آواز سن کر نماز ترک کردی اور آپ کو جواب دیا، آپ نے فرمایا بہت اچھا کام کیا کیونکہ یہ نفلوں کی نماز سے افضل ہے، اپنے پیر کے دینی کام میں معتقد ہونا بہت اچھا کام ہے۔

    اسی موقع کے مناسب آپ نے فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں اور بہت سے اہل صفا شیخ معین الدین کی خدمت میں حاضر تھے اور اؤلیااللہ کے بارے میں ذکر ہو رہا تھا، اسی اثنا میں ایک شخص باہر سے آیا اور بیعت ہونے کی نیت سے خواجہ صاحب کے قدموں میں سر رکھ دیا، آپ نے فرمایا بیٹھ جا، وہ بیٹھ گیا، اس نے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت میں مرید ہونے کے واسطے آیا ہوں ! شیخ صاحب اس وقت اپنی خاص حالت میں تھے، آپ نے فرمایا کہ جو کچھ میں تجھے کہتا ہوں وہ کہو اور بجالا تب مرید کروں گا، اس نے عرض کیا کہ جو آپ فرماویں میں بجالانے کو تیار ہوں، آپ نے فرمایا کہ تو کلمہ کس طرح پڑھتا ہے؟ اس نے کہا لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ، آپ نے فرمایا کہ یوں کہو ! لا الہ الا اللہ چشتی رسول اللہ، اس نے اسی طرح کہا، خواجہ صاحب نے اسے بیعت کرلیا اور خلعت و نعمت دی اور بیعت کے شرف سے مشرف کیا پھر اس شخص کو فرمایا کہ سن ! میں نے تجھے جو کہا تھا کہ کلمہ اس طرح پڑھو ! یہ صرف تیرا عقیدہ آزمانے کی خاطر کہا تھا، ورنہ میں کون ہوں؟ میں تو ایک ادنیٰ سا غلام محمد رسول اللہ کا ہوں، کلمہ اصل میں وہی ہے لیکن میں نے صرف حال کی کمالیت کی وجہ سے یہ کلمہ تیری زبان سے کہلوایا تھا چونکہ تو مرید ہونے کے لئے آیا ہے اور تجھے مجھ پر یقین کامل تھا اس لئے فوراً تونے ایسا کہہ دیا، اس لئے سچا مرید ہوگیا، در حقیقت مرید کا صد ق بھی ایسا ہی ہونا چاہیے کہ اپنے پیر کی خدمت میں صادق اور راسخ رہے۔

    پھر اس بارے میں گفتگو شروع ہوئی کہ جب انسان توبہ کرے تو پھر اسے گناہوں سے میل جول نہیں رکھنا چاہئے جن سے وہ پہلے رکھتا تھا کہ کہیں پھر اسی گناہ میں مشغول نہ ہوجائے کیونکہ انسان کے لئے بری صحبت سے بڑھ کر اور کوئی بری چیز نہیں اس واسطے کہ صحبت کی تاثیر ضرور ہو تی ہے اور اسے چاہئے کہ خود بھی جس کام سے توبہ کیا ہے اس سے کنارہ کشی کرتا رہے اور اسے اپنا دشمن خیال کرے۔

    اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ خواجہ حمیدالدین بہلوانی ایک مرد بزرگ جو حضرت خواجہ معین الدین کے مریدوں میں سے تھے اور اس دعاگو کے ہم خرقہ تھے جب انہوں نے توبہ کی تو یار اور ہم نشین پھر آئے اور آپ سے کہا کہ آؤ پھر وہی عیش لوٹیں، خواجہ حمیدالدین بہلوانی نے وہاں جانے سے انکار کیا اور کہا کہ جاؤ گوشہ میں بیٹھو اور اس مسکین کو چھوڑ دو کہ میں نے اپنا ازار بند ایسا مضبوط باندھا ہے کہ بہشت میں حوروں پر بھی نہیں کھلنے کا، خواجہ قطب الاسلام انہیں فوائد کو بیان کر رہے تھے کہ طعام لایا گیا، خواجہ اور باقی درویش کھانے میں مشغول ہوگئے، اسی اثنا میں شیخ نظام الدین ابوالمؤید اندر آئے اور سلام کیا، خواجہ قطب الاسلام نے ان کی ذرہ بھر پروا نہ کی اور سلام کا جواب تک نہ دیا، شیخ نظام الدین ابوالمٔوید کو یہ بات ناگوار گزری، الغرض ! جب طعام سے فارغ ہوئے تو ابوالمؤ ید نے سوال کیا کہ جس وقت ہم آئے تو اس وقت آپ کھانا کھا رہے تھے، میں نے سلام کیا تو آپ نے جواب تک نہ دیا، اس کی کیا وجہ ہے، خواجہ قطب الاسلام نے فرمایا کہ ہم اس وقت طاعت میں تھے، ہم کس طرح سلام کا جواب دیتے کیونکہ درویش لوگ جو کھانا کھاتے ہیں تو صرف اس غرض سے کھاتے ہیں کہ ان میں عبادت کرنے کی طاقت پیدا ہوجائے چونکہ در حقیقت عبادت میں مشغول ہوتے ہیں، پس جو شخص خدا کی بندگی میں مشغول ہو اس پر واجب نہیں کہ سلام کا جواب دیوے اور آنے والے شخص پر جائز ہے کہ وہ سلام نہ کہے اور بیٹھ کر کھانا کھانے میں مشغول ہو جاوے، جب کھانے سے فارغ ہوجائے تو پھر سلام کہے،

    خواجہ صاحب نے اسی موقع کے مناسب یہ حکایت بیان فرمائی کہ ایک مرتبہ شیخ ابوالقاسم نصیرآبادی جو شیخ ابوسعید ابواطہر کے پیر تھے، اپنے یاروں کے ہمراہ کھانا کھانے میں مشغول تھے، امام الحرمین جو امام غزالی کے استاد تھے اندر آئے اور سلام کہا لیکن یاروں نے ان کی طرف توجہ نہ کی، جب کھانا کھاچکے تو امام الحرمین نے کہا کہ میں نے آکر سلام کیا لیکن تم نے اس کا جواب بھی نہ دیا، کیا یہ طرز اچھی ہے؟ شیخ ابوالقاسم نے کہا کہ رسم ہی یہی ہے کہ جو شخص کسی جماعت میں آئے وہ کھانا کھانے میں مشغول ہو تو نو وارد کو چاہئے کہ سلام نہ کہے اور بیٹھ جائے جب کھانا کھانے سے فارغ ہوکر ہاتھ دھولیں تو اٹھ کر سلام کہے، امام الحرمین نے کہا کیا یہ از روئے عقل کہتے ہو یا از روئے نقل، شیخ ابوالقاسم نے کہا از روئے عقل، اس واسطے کہ جو طعام کھایا جاتا ہے وہ عبادت کی قوت کے لئے کھایا جاتا ہے، جب کوئی شخص طعام اس نیت سے کھاتا ہے تو وہ اس وقت عین طاعت میں ہے پس جو شخص عین طاعت میں ہو وہ سلام کا جواب کس طرح دے سکتا ہے، اس کے بعد خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ عالم سکر میں مشغول ہوئے اور دعا گو واپس آکر اپنی کٹیا میں یاد الٰہی میں مشغول ہوگیا۔

    الحمدللہ علی ذالک۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے