فوائدالسالکین، ساتویں مجلس :-
دلچسپ معلومات
ملفوظات : قطب الدین بختیار کاکی جامع : بابا فرید
بدھ کے روز 584 ہجری کو قدم بوسی کا شرف حاصل ہوا، قاضی حمیدالدین، مولانا شہاب الدین اوشی، محمود موزہ دوز، خواجہ تاج الدین غزنوی، مولانا فقیہہ خداداد، سید نورالدین مبارک غزنوی، سید شرف الدین، شمس الدین ترک، مولانا علاؤالدین کرمانی، قاضی عمادالدین اور مولانا فخرالدین حاضر خدمت تھے، سلوک کے بارے میں گفتگو ہو رہی تھی، اس اثنا میں قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ امام الحرمین اپنے یاروں کے ہمراہ بیٹھے تھے کہ آپ پر حالت طاری ہوئی، امام الحرمین نے ذکر الٰہی شروع کیا، ان کی موافقت سے سارے بزرگ جو وہاں موجود تھے ذکر الٰہی میں مشغول تھے اور انہیں اپنے آپ کی خبر نہ تھی، ہر ایک کے رونگٹے سے خون جاری ہوا اور جو قطرہ زمین پر گرتا اس سے زمین پر اللہ کے نام کا نقش پیدا ہوجاتا اور اس قطرے سے بھی ذکر الٰہی جاری ہوتا جب خواجہ صاحب نے یہ حکایت بیان فرمائی تو سب کو وجد ہوگیا اور ذکر میں مشغول ہوگئے اور اس قدر ذکر کیا کہ بے ہوش ہوگئے تو خواجہ نے یہ رباعی پڑھی۔
رباعی
ذکر خوش تو زہر دہن می شنوم
شرح غم تو ز خویشتن می شنوم
گرہیچ نہ باشد کہ یکے منشانم
تانام تو می گوید و من شنوم
ترجمہ : تیرا خوش ذکر میں ہر منہ سے سنتا ہوں اور تیرے غم کی شرح اپنے آپ سے سنتاہوں۔
ترجمہ : تا وقتیکہ کوئی تیرا نام نہ لے اور میں سن نہ لوں، میں اسے اپنے پاس بیٹھنے ہی نہیں دیتا۔
اہل مجلس ذکر میں پھر مشغول ہوگئے اور اس قدر ذکر کیا کہ ہر ایک کے رونگٹوں سے خون جاری ہوگیا اور قطرہ جو زمین پر گرتا، اس سے سبحان اللہ کا نقش بن جاتا اور قطرہ سے بڑی آواز کے ساتھ ذکر الٰہی نکلتا جب اس ذکر سے فارغ ہوئے تو دعاگو نے سر اٹھا کر سر زمین پر رکھ دیا، میری یہ نیت تھی کہ ہانسی کی طرف جاؤں، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ کی نظر دعاگو پر پڑی تو آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا کہ مولانا فرید ! میں جانتاہوں کہ تو جائے گا پھر میں نے سر زمین پر رکھ دیا اور عرض کیا اگر آپ کا حکم ہو پھر حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اس فقیر کی دینی اور دنیاوی نعمتوں کی زیادتی کے لئے فاتحہ اور اخلاص پڑھو اور دعائے خیر کہو پھر مجھے مصلیٰ اور عصا عطا فرمایا اور دوگانہ ادا کیا اور فرمایا کہ بیٹھ جا، کل جانا، خواجہ صاحب کے حکم کے بموجب میں نے دوگانہ ادا کیا اور بیٹھ گیا، خواجہ قطب الاسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے دعاگو کی طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ تمہاری امانت یعنی سجادہ، نعلین دستار اور خرقہ قاضی حمیدالدین ناگوری کو دے دوں گا، میرے انتقال کے بعد پانچویں روز آنا اور لے لینا کیونکہ یہ تیرے ہی متعلق ہیں جونہی کہ خواجہ صاحب نے یہ کہا مجلس سے آہ و بکا کی آواز بلند ہوئی، سب نے خواجہ صاحب کے لئے دعا کی، بعد ازاں خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں خود بھی اپنے خواجہ شیخ الاسلام خواجہ معین الدین حسن سنجری علیہ الغفریہ کے وقت حاضر نہ تھا اور انہوں نے خود سجادہ عنایت نہیں کیا بلکہ مجھے بھی اسی طرح ملا تھا جیسا کہ میں نے تمہارے ساتھ کیا ہے۔
پھر فرمایا کہ مرید پر لازم ہے کہ اپنے پیر کے طریقے پر ثابت قدم رہے اور اس سے ذرہ بھر نہ بڑھے تاکہ قیامت کو شرمندہ نہ ہووے پھر خوف کے بارے میں گفتگو شروع ہوئی، آپ نے زبان مبارک سے فرمایا کہ خوف الٰہی تازیانہ (کوڑا) ہے جو بے ادبوں کے لئے مقرر کیا ہے تاکہ جو شخص بے ادبی کرے اسے لگائیں یہاں تک کہ درست ہوجائے پھر فرمایا کہ جس دل میں خوف الٰہی ہوتا ہے اسے پاش پاش کردیتا ہے پھر فرمایا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ خواجہ سفیان ثوری کو ایک زحمت تھی، ہارون رشید نے ایک آتش پرست طبیب کو بلایا جو سب سے بڑھ کر لائق تھا جب نزدیک آکر خواجہ سفیان ثوری کے سینے پر ہاتھ رکھا تو نعرہ مار کر بے ہوش ہوگیا اور گر پڑا اور کہا سبحان اللہ ! دین محمدی میں ایسے مرد بھی ہیں کہ جن کا دل خوف الٰہی سے پاش پاش ہوگیا ہو، اس طبیب نے فوراً کلمہ پڑھا اور دین قبول کیا جب یہ خبر ہارون رشید نے سنی تو کہا میں نے تو خیال کیا تھا کہ طبیب کو بیمار کے پاس بھیجا ہے لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ بیمار کو طبیب کے پاس بھیجا ہے پھر فرمایا کہ اہل سلوک کا قول ہے کہ اگر درویش دولت مندی کو چاہے تو دولت مند سے محبت کرے اور اگر محبت الٰہی کا فخر حاصل کرنا چاہتا ہے تو اپنی خواہشوں سے ناامید ہوجائے تب کہیں ان مقامات کو حاصل کرسکے گا اور اگر ایسا نہ کرے گا تو اس کا کام بگڑ جائے گا۔
اس کے بعد میری طرف مخاطب ہوکر فرمایا کہ اے فرید ! تو دنیا اور آخرت میں ہمارا یار ہے لیکن غافل ہرگز نہ ہونا کیونکہ اہل سلوک کا قول ہے کہ طریقت کی راہ از بس پُرخوف ہے جو شخص اس راہ میں قدم رکھتا ہے اگر وہ اہل سلوک کے فرمان کے مطابق عمل نہ کرے تو کبھی خدا رسیدہ نہیں ہوسکتا اور جب تک عاجزی اور غم سے اندر آنے کی اجازت نہ مانگے وہ ہرگز باریاب نہیں ہوسکتا اور جب تک سر کے بل نہ چلے وہ بارگاہ الٰہی میں نہیں پہنچ سکتا پھر فرمایا کہ اسی (۸۰) سال تک جب تک میں نے سب زبانوں سے دخل کی اجازت نہ مانگی انہوں نے نہ دی اور سارے ہاتھوں سے جب تک دروازہ نہ کھٹکھٹایا انہوں نے نہ کھولا اور جب تک سارے قدموں سے اس کی راہ میں نہ چلا ہرگز عزت کے مقام پر نہ پہنچا، خلاصہ یہ کہ بڑی عاجزی اور انکساری اور تکلفات برداشت کرکے منزل مقصود پر پہنچا جونہی کہ خواجہ صاحب قطب اسلام ادام اللہ برکاتہٗ نے ان فوائد کو ختم کیا سارے حاضرین نے سر زمین پر رکھ دیئے، آپ نے سب کو اٹھایا جب میری باری آئی تو مجھے بغل میں لے کر روئے اور یہ الفاظ زبان مبارک سے فرمائے، ھٰذا فراق بینی و بینک (جدائی ہے میرے اور تیرے درمیان)۔
اس کے بعد فرمایا کہ ارادت کا حق پورا کر اور چونکہ آب و دانہ کی کشش سخت ہے جا ! میں نے تجھے خدا کو سونپا اور قرب اور عظمت کے مقام پر پہنچایا، جونہی کہ یہ فرمایا عالم تحیر میں مشغول ہوگئے اور دعاگو واپس چلا آیا، یہ سلوک کے وہ فوائد ہیں جو اہل جہاں نے مخدوم کی زبان سے سن کر اس مختصر سی کتاب میں لکھے ہیں۔
الحمدللہ علی ذالک۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.