Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

آنکھوں میں تصور میں جو وہ ماہِ مبیں ہے

عارفؔ نقشبندی

آنکھوں میں تصور میں جو وہ ماہِ مبیں ہے

عارفؔ نقشبندی

MORE BYعارفؔ نقشبندی

    آنکھوں میں تصور میں جو وہ ماہِ مبیں ہے

    دنیا بھی حسیں ہو گی عقبیٰ بھی حسیں ہے

    قندیلِ حرم، حسنِ ازل، شمعِ مبیں ہے

    اللہ کا محبوب حسینوں کا حسیں ہے

    کھانے کے لیے جس کی غذا نانِ جویں ہے

    کونین کی دولت کے خزانوں کا امیں ہے

    ملتا ہے خدا بھی جہاں محبوبِ خدا بھی

    وہ گنبدِ خضرا ہے مدینے کی زمیں ہے

    کس کس طرح آتا ہے نظر اہلِ نظر کو

    اس روضۂ پُر نور میں جو پردہ نشیں ہے

    سرکار دو عالم کا ہو ثانی بھی کہاں سے

    ایسا کوئی دنیا میں ہوا بھی تو نہیں ہے

    سینہ ہے کہ گنجینۂ اسرار الٰہی

    چہرہ ہے محمد کا کہ قرآنِ مبیں ہے

    نظروں میں بھی آجاؤ کبھی پردہ ہٹا کر

    نزدیکِ رگِ جاں ہو مجھے یہ تو یقیں ہے

    کچھ اور ہی ہوتی ہیں محبت کی نمازیں

    جھکتی ہے جو محرابِ حرم میں وہ جبیں ہے

    ظاہر میں ہے نا محرم دیدار سے پردہ

    آنکھیں کوئی رکھتا ہو تو پردا بھی نہیں ہے

    اے جذبِ محبت ذرا ہشیار، خبردار

    یہ عرش کی منزل ہے یہ روضہ کی زمیں ہے

    کیا عِشق نبی سے ہے مقامِ دل عارفؔ

    یہ مرکز ایماں ہے یہی مرکزِ دیں ہے

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے