خالق پہ جان و مال سے قرباں حسین ہے
دلچسپ معلومات
مناقب در شان حضرت امام حسین (کربلا-ایران)
خالق پہ جان و مال سے قرباں حسین ہے
رودادِ صبر و ضبط کا عنواں حسین ہے
انسانیت کے درد کا درماں حسین ہے
قائم ہے جس سے عظمتِ انساں حسین ہے
دنیا کو دے دیا ہے وہ آئینِ زندگی
ملتی رہے گی موت میں تسکینِ زندگی
تفسیر حق ہے عدل کا وہ ترجمان ہے
ایمان کی ہے روح عبادت کی جان ہے
میداں میں وہ مرد مجاہد کی آن ہے
فخرِ جہاد ہے وہ شہادت کی شان ہے
پیچھے ہٹا نہ اپنے مقابل کے سامنے
اک کوہِ بے ستوں رہا باطل کے سامنے
آئی بلا جو مرِدِ مسلماں کے سامنے
کشتی بڑھا کے لے گیا طوفاں کے سامنے
سیلابِ ظلم تھم گیا ایماں کے سامنے
ہنستا رہا وہ خنجرِ براں کے سامنے
’’ہمت میں بے مثال، شجاعت میں فرد ہے‘‘
تلوار کا دھنی ہے وہ میداں کا مرد ہے
اللہ ری یہ شانِ عبادت حسین کی
بنیادِ دینِ حق ہے امامت حسین کی
آئے گی یاد تابہ قیامت حسین کی
کیا درس دے رہی ہے شہادت حسین کی
باطل کی جورو ظلم کی دنیا خراب ہے
قائم جو حق پہ ہوگیا وہ کامیاب ہے
افسوس ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ بھلا دیا
رسموں میں کارناموں کو اُن کے چھپا دیا
تاریخ کو سب اپنی ٹھکانے لگا دیا
اک واقعہ عظیم تھا اور کیا بنا دیا
ہر ایک رسم وجہ عقیدت بنی ہوئی
بِدعت ہر اک ہے آج شریعت بنی ہوئی
کیا خوب رنج حضرتِ عالی مقام ہے
کپڑے ہیں زرق برق تو رخ لالہ فام ہے
عیش و نشاط کا یہ نیا اہتمام ہے
قرآن ہے بغل میں نظر میں حرام ہے
سامان ہو رہے ہیں یہ رسوائیوں کے آج
میلے لگے ہوئے ہیں تماشائیوں کے آج
یوں پھر رہے ہیں چھیل چھبیلے بنے ہوئے
مالا گلے میں ہاتھ میں گجرے بندھے ہوئے
فیشن میں غرق عطر میں کپڑے بسے ہوئے
ہونٹوں پہ لال پان کے لاکھے جمے ہوئے
کیسا یہ احترام ہے خونِ شہید کا
جو کام کر رہے ہیں وہ شمر و یزید کا
نیل آنکھ کا ڈھلا تو نہ غیرت وہ اب رہی
عزت نہ آبرو نہ شرافت وہ اب رہی
سرد ہوگیا لہو نہ حرارت وہ اب رہی
جیتے ہی مر گئے نہ شجاعت وہ اب رہی
احسان کر رہے ہو یہ روحِ امامِ پر
رونا ہی صرف سیکھے ہو مولا کے نام پر
رونا بھی کیسا؟ گانوں کے باجوں کے ساتھ ساتھ
نقارے، ڈھولوں، تاشوں، مجیروں کے ساتھ ساتھ
پڑھتے ہیں سوز و مرثیہ نالوں کے ساتھ ساتھ
نظارہ باز بھی ہیں نظاروں کے ساتھ ساتھ
پہلو یہ تعزیوں میں عجب دل خراش ہے
یہ جذبۂ جہاد کی کاندھوں پہ لاش ہے
اسلام سے لگاؤ دلوں کو ذرا نہیں
روزہ نہیں، نماز نہیں، اتقا نہیں
کچھ پیرویٔ حکمِ شہ دوسرا نہیں
گمراہی کی یہ حد ہے کہ خوف خدا نہیں
مرنے کا ہے مقام بڑی شرم کی ہے بات
جو قتل کی ہے رات بنی ہے شبِ برات
بھٹکا ہوا ہے راہ سے کچھ ایسا کارواں
منزل کا دور دور نہیں نام اور نشاں
اس پر یہ ظلم چلتی ہیں ظلمت کی آندھیاں
حافظ خدا ہے دیکھیں پہنچتے ہیں ہم کہاں
لفظی عقیدتیں ہیں جنابِ امام سے
نسبت نہیں ہے کوئی ہمیں اُن کے کام سے
دل میں وہ جوش ہے نہ وہ ایماں کا درد ہے
وہ رعبِ کفر چھا گیا چہرہ بھی زرد ہے
واقف ہے خوب اس سے جو میداں کا مرد ہے
جینا ہے اس کا موت لہو جس کا سرد ہے
موقع نہیں ہے صرف یہ آنسو بہانے کا
ہے اور بھی طریقہ محرم منانے کا
آواز دے رہا ہے یہ میدانِ کربلا
مردانِ کار زار کی دنیا میں آذرا
شمشیر آب دار کے جوہر ذرا دکھا
شعلوں سے کھیل آگ کا طوفاں کوئی اٹھا
کہتے ہیں لوگ شعلۂ ایماں نہیں رہا
اک راکھ کا ہے ڈھیر مسلماں نہیں رہا
دوزخ بنا ہے پیٹ غدائے حرام سے
دم نکلا جا رہا ہے سجود و قیام سے
تلوار باہر آئے تو کیوں کر نیام سے
فالج پڑا ہوا ہے شہادت کے نام سے
تھا سلسلہ توشہ کا خلیل و کلیم تک
افسوس رہ گئی حلوے حلیم تک
باطل نے تجھ کو آج یوں نیچا دکھا دیا
ہر اک درِ ذلیل پہ لا کر جھکا دیا
مولا کی بندگی کو بھی دل سے بھلا دیا
تجھ کو بلندیوں نے تری خود گرا دیا
سچ ہے جو دل سے جذبۂ ایماں نکل گیا
تلوار چھوٹی ہاتھ سے میداں نِکل گیا
دعویٰ تو یہ غلام شہِ مشرقین ہے
مجلس میں عوتوں کی طرح شورو شین ہے
کیسی یہ سینہ کوبی ہے کیسا یہ بین ہے
لے دے کے اشکِ بزدلی نذرِ حسین ہے
دل میں اگر حسین کا ارمانِ عشق ہے
سر چاہیے یہاں کہ یہ میدانِ عشق ہے
روزہ، نماز، حج و زکوٰۃ، ہو چکے ادا
عمامے چھوڑ، سیکھ کفن سر سے باندھنا
کچھ پاؤں آگے ممبرو محراب سے بڑھا
گونجے فضا میں کلمۂ توحید کی صدا
مسجد میں مانا مجلسِ شبیر چاہیے
میداں میں بھی نعرۂ تکبیر چاہیے
منہ پھیر دے زمانہ کی بگڑی ہواؤں کا
تختہ الٹ دے ظلم کا جھوٹے خداؤں کا
ٹوٹے اگر پہاڑ بھی عارفؔ بلاؤں کا
ڈٹ کر مقابلہ ہو ستم کا جفاؤں کا
پروا نہیں ہے معرکہ کتنا ہی سخت ہو
مردوں کا یہ اصول ہے تختہ کہ تخت ہو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.