Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

تعالی اللہ زہے شانِ امیر یثرب و بطحا

غلام علی حسن

تعالی اللہ زہے شانِ امیر یثرب و بطحا

غلام علی حسن

MORE BYغلام علی حسن

    دلچسپ معلومات

    منقبت در شان حضرت علی مرتضیٰ (نجف-عراق)

    تعالی اللہ زہے شانِ امیر یثرب و بطحا

    فروغِ شرعِ پیغمبر چراغِ ملتِ بیضا

    اللہ اکبر امیر یثرب و بطحا کی شان بھی کیا شان ہے کہ آپ نبی کی شریعت کو فروغ دینے والے اور ملت بیضا کا چراغ ہیں۔

    علی حبہ، جنہ، قسیم النار والجنہ

    امام الانس والجنہ وصیٔ مصطفیٰ حقا

    علی کی محبت گویا سپر ہے، آپ دوزخ اور جنت کے تقسیم کرنے والے ہیں، خدا کی قسم آپ وصی مصطفیٰ اور انس و جن کے امام ہیں۔

    نوید والِ من والا ہ از بہر محب او

    وعید عاد من عاداہ آمد از پئے اعدا

    آپ سے محبت رکھنے والوں کے لیے ’’وال من والا‘‘ کی خوش خبری ہے اور آپ کے شمنوں کے لیے ’’عاد من عاداہ‘‘ کی دھمکی ہے۔

    عبث در معنیٔ من کنت مولا می روی ہر سو

    علی مولا بہ ایں معنی کہ پیغمبر بود مولا

    ’’من کنت مولا‘‘ کے معنی معلوم کرنے کے لیے تمہارا ادھر ادھر جانا بے کار ہے، آنحضرت جس کے مولا ہیں حضرت علی بھی اس کے مولا ہیں۔

    علی افضل، علی اکمل، علی اجمل علی عادل

    علی عالی، علی والی، علی یعلو، ولا یعلیٰ

    علی سب سے افضل ہیں، علی سب سے زیادہ کامل، علی سب سے زیادہ حسین ہیں، علی سب سے زیادہ عادل ہیں، علی ایسے بلند مرتبہ والے آقا ہیں کہ آپ کی رفعت میں کبھی کمی نہیں ہو سکتی۔

    علی حیدر، علی صفدر، علی داور، علی یاور

    علی ایماں، علی قرآں، علی سلطاں، علی آقا

    علی شیر خدا ہیں، علی صفوں کو درہم برہم کرنے والے ہیں، علی حاکم بالا دست ہیں اور علی مشکل کشا ہیں، علی ایمان ہیں، علی قرآن ہیں، علی سلطان ہیں، علی سب کے سردار ہیں۔

    علی صابر، علی قاہر، علی ذاکر، علی شاکر

    علی عابد علی ماجد، علی طاہر، علی تقوٰی

    علی صابر ہیں، علی غلبہ رکھنے والے ہیں، علی ذاکرِ حق ہیں، علی شاکر ہیں، علی عبادت کرنے والے ہیں، علی سجدہ گذار ہیں، علی ظاہر ہیں اور علی سراسر تقویٰ ہیں۔

    علی ہادی، علی مہدی، علی قاضی، علی مفتی

    علی سرور علی دانا علی بہتر علی اولیٰ

    علی ہدایت کرنے والے ہیں، علی ہدایت یافتہ ہیں، علی فیصلہ کرنے والے ہیں، علی فتویٰ دینے والے ہیں، علی سب کے سردار ہیں، علی سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، علی سب سے بہتر ہیں اور علی اولیٰ بالتصرف ہیں۔

    زہے طیب، زہے طاہر، زہے باطن، زہے طاہر

    زہے صورت، زہے سیرت، زہے طاعت، زہے تقویٰ

    کیا کہنے آپ کس قدر پاک ہیں، آپ کس قدر معصوم ہیں، آپ کا ظاہر و باطن کس قدر پاک ہے، آپ کی صورت وسیرت اور طاعت و تقویٰ کی کون تعریف کر سکتا ہے۔

    عبادت دیدن سہ شئ بہ ارشادِ نبی آمد

    یکے کعبہ، دوم قرآں، سوم روئے شہ والا

    آپ کی کون تعریف کر سکتا ہے، حضرت نبیٔ پاک کے ارشاد کے مطابق تین چیزوں کا دیکھنا عبادت ہے، ایک کعبہ، دوسرا قرآن، تیسرا روئے علی۔

    نبوت کردہ استشنا حدیث منزلت گویت

    کہ اواز احمدِ مرسل چو ہارون است از موسیٰ

    بارگاہِ نبوت سے بطور استشنا آپ کے لیے حدیث منزل ارشاد ہوئی ہے، آپ کی نسبت نبی کریم سے وہی ہے جو حضرت ہارون کو موسیٰ سے تھی۔

    بروز حشر آں سرور، پئے کوثر بود ساقی

    لوائے حمد را حامل کلیدِ جنت الماویٰ

    قیامت کے دن آپ ساقیٔ کوثر ہوں گے، لوائے حمد آپ ہی کے ہاتھ میں ہوگا، آپ ہی جنت الماویٰ کی کلید ہوں گے۔

    احب الخلق عند اللہ، جناب مستطاب او

    حدیث طیر را بر خواں اگر شک می برد از جا

    اللہ کے نزدیک ساری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب حضرت علی کی ذات اقدس ہے، اگر تجھے اس میں کوئی شک ہو تو حدیث طیر کا مطالعہ کر۔

    پس از نام نبی نامش رقم بر عرش شد آں دم

    کہ در کتِم عدم بودہ نشانِ آدم و حوا

    رسول خدا کے نام کے بعد آپ کا نام اس وقت سے عرش پر لکھا ہوا ہے جب کہ حضرت آدم و حوا کا وجود ابھی پردۂ عدم میں تھا۔

    نہ تنہا نامِ او ثبت است بر دروازۂ جنت

    کہ مرقوم است بر ہر شاخ و برگِ سدرہ و طوبیٰ

    آپ کا اسم گرامی نہ صرف جنت کے دروازے پر کندہ ہے بلکہ سدرہ اور طوبیٰ کی ہر شاخ اور پتے پر لکھا ہوا تھا۔

    در آں دم بود نورِ او بہ نور مصطفیٰ تو ام

    کہ بودہ بے نشاں عرش جلیل و کرسیٔ اعلیٰ

    آپ کا نور نور نبی کے ساتھ اس وقت سے متصل تھا کہ ابھی عرش معلیٰ اور کرسی کا نام ونشان تک نہ تھا۔

    ز آدم تا رسول اللہ ولی باہر نبی بودہ

    مگر در چشم ظاہر بیں، رفیق مصطفیٰ تنہا

    حضرت آدم سے لے کر رسول عربی تک ہر نبی کے ساتھ ایک ولی رہا ہے مگر ظاہر بیں کی آنکھ میں حضرت محمد مصطفیٰ کے تنہا رفیق علی تھے۔

    علی در بطن مادر بود در ذکرِ خدا ہر دم

    عبادت را بر او نازے فدایش عالم جاں ہا

    علی بطن مادر میں بھی ہر دم ذکرِ خدا میں مصروف تھے، خود عبادت آپ پر ناز کرتی تھی اور عالم ارواح آپ پر قربان ہوتا ہے۔

    رسول اللہ چوں آمد بہ نزد مادر حیدر

    دریں مدت کہ بودہ در شکم آں معدنِ تقویٰ

    جتنی مدت وہ معدنِ تقویٰ (حضرت علی) شکم مادر میں رہے، رسول اللہ جب کبھی مادر حیدر کے قریب تشریف لائے۔

    ولی می گفت تسلیمات اے پیغمبر بر حق

    حبیب خالق اکبر امین رب بے ہمتا

    تو شاہِ ولایت فرماتے تھے، اے حبیبِ خالق کبریا، اے پروردگارِ بے مثال کے امین، اے پیغمبر برحق آپ پر سلام ہو۔

    نبی می گفت با حیدر سلام کبریا بر تو

    امام المتقین شاہِ ولایت معدلت پیرا

    تو نبی کریم بھی جناب امیر سے سے ارشاد فرماتے کہ اے متقیوں کےامام، اے عدل گستر شاہ ولایت آپ پر بھی سلام ہو۔

    بہ بیں جائے کہ بودہ جائے دست رحمتِ یزداں

    فدائے حیدر صفدر کفِ پایش رسید ایں جا

    ذرا اس مقام کی عظمت پر غور کر جہاں اللہ پاک دست رحمت تھا، میں حیدر صفدر پر کیوں نہ قربان ہو جاؤں کہ آپ کے کفِ پا کو اللہ تعالیٰ نے وہاں تک پہنچنے کی سعادت عطا فرمائی۔

    بوقت زادنِ عیسیٰ صدا از آسماں آید

    کہ بیروں حضرت مریم رود از مسجدِ اقصیٰ

    حضرت عیسیٰ کی ولادت سے پہلے آسمان سے ندا آئی تھی کہ مریم مسجد اقصیٰ سے باہر چلی جائیں۔

    ورائے حیدر صفدر کرِا ایں منقبت حاصِل

    کہ شد در خانۂ پاکِ خدائے لم یلد پیدا

    سوائے حیدر صفدر کے کِس کویہ منزلت حاصل ہے کہ آپ کی ولادت خدائے لم یلد کے گھر یعنی خانۂ کعبہ میں ہوئی۔

    نخست آں شاہِ دیں، شیر خدا شیرے کہ نوشیدہ

    چکیدہ از ز بانِ پاکِ احمد سرور عقبیٰ

    اس شاہِ دیں، شیر خدانے سب سے پہلے حضرت نبیٔ کریم سردار عقبیٰ کی زبان مبارک سے لعاب دہن چوسا۔

    شبِ معراج پا بوس پیمبر عرش اعظم شد

    بیانِ قربت او، آیۂ قوسین او ادنیٰ

    معراج کی رات عرش اعظم نے رسول اللہ کے پاؤں چومے اور آیت قاب قوسین او ادنیٰ آپ کے مقامِ قرب کو ظاہر کرتی ہے۔

    علی را جائے معراج آمدہ دوش شہنشاہے

    کہ در شانش خدا فرمود سبحان اللذی اسریٰ

    حضرت علی کی جائے معراج دوش حضرت پیغمبر ہے، معراج کی شان میں خدا نے سبحان اللذی اسریٰ ارشاد فرمایا ہے۔

    حدیثے در صحاح آمد کہ رب عالم و آدم

    نہادہ دست بر دوش محمد در شب اسریٰ

    صحاح ستہ کی حدیث شریف ہے کہ عالم و آدم کے پروردگار نے معراج کی رات اپنا ہاتھ دوش پیمبر پر رکھا تھا۔

    مرا ہرگز نہ خواہد گفت موجد بہر ایں مضموں

    کسے کو روضۃ الاحباب را دیدہ بہ استقصا

    اس مضمون کا میں موجد نہیں ہوں، جو بھی روضۃ الاحباب کا مطالعہ کرے گا وہ اس مضمون کو دیکھے گا۔

    علی باب مدینہ، مصطفیٰ شہر علوم آمد

    دخول بیت بے دروازہ کیے ممکن بود حاشا

    حضرت علی باب مدینہ عِلم ہیں اور حضرت مصطفے شہر عِلم ہیں، بغیر دروازہ کے مکان میں داخلہ کس طرح ممکن ہے۔

    مقرر کرد در مسجد، محمد مسکن پاکش

    علی مانند ہارون است ایں معنی بہ ایں ایما

    حضرت رسول اللہ نے حضرت علی کا مسکن مسجدمیں مقرر فرمایا تھا، (حضرت نبی کریم کے) اس اشارے اور اس معنی سے علی حضرت ہارون کی مثال ہیں۔

    نبی راہر چہ جائز بود در مسجد بہ حکم رب

    نہ جائز بود بہر غیر شاہِ لا فتیٰ اصلا

    حضرت نبی کے لیے جو کچھ بحکم خدا مسجد میں جائز تھا وہ شاہ لا فتیٰ کے سِوا کسی غیر کے لئے ہرگز جائز نہ رکھا گیا۔

    برائے سدِّ ہر باب از پیمبر حکم نافذ شد

    مگر دروازۂ حیدر بہ حکم خالق دانا

    مسجد نبوی میں ہر گھر کا دروازہ نبی کے حکم سے بند کرا دیا گیا مگر حضرت علی کا دروازہ اللہ کے حکم سے کھلا رہا ہے۔

    زتفسیر کلام اللہ اگر پرسی شود ناطق

    کہ سی صد آیۂ نازل شد بہ شان شوہر زہرا

    اگر کلام اللہ کی تفسیر دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تین سو آیتیں حضر زہرا کے شوہر ( حضرت علی) کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

    بود فرض خدا تعظیم او چوں مصحفِ صامت

    من ام قرآنِ ناطقِ، ہست ارشاد شہ اتقا

    قرآنِ صامت کی تعظیم کی طرف حضرت علی کی تعظیم بھی فرض ہے، اے مخاطب اگر رجعت آفتاب کے بارے میں تو کچھ معلوم کرنا چاہتا ہے تو سن کیونکہ شاہِ اتقیا (حضرت علی) کا ارشاد ہے کہ میں قرآن ناطق ہوں۔

    اگر از رجعت خورشیدمی پرسی مکرر شد

    یکے در عہد پیغمبر، دوم در عہد آں آقا

    دو دفعہ آفتاب پلٹا ہے، ایک مرتبہ عہد نبوت میں اور دوسرے مرتبہ حضرت علی کے عہد خلافت میں۔

    رسیدہ بردر مغرب مگر تاختم تو صیفش

    بہ اعجاز شہ مرداں نہ جنبد آفتاب از جا

    آفتاب عین مغرب تک پہنچ کر شاہ مرداں کے اعجاز سے اس وقت رُکا رہا جب تک کہ آپ کی نماز ختم نہ ہوئی۔

    مخاطب اہل ایمانند ہر جائے کہ درمصحف

    میانِ آں ہمہ بودہ امیر المؤمنین مولا

    قرآن کریم میں جہاں کہیں اہل ایمان سے مخاطبت ہوئی ہے، وہاں ہر جگہ امیرالمؤمنین حضرت علی کا ذکر بھی ہے۔

    کسے کز حبِّ احمد دم زند، بے الفت حیدر

    خلل اندر دماغ او بود، از کثرت سودا

    جو شخص بغیر محبت علی کے حبّ رسول کا دم بھرتا ہے، سمجھ لو کہ کثرت سودا سے اس کے دماغ میں خلل پیدا ہو گیا ہے۔

    چہ می پرسی ز شان آں کہ باشد ابن عم او

    امام المرسلیں مصداق یٰسیں مقصد طاہا

    حضرت علی کی شان کا پوچھنا ہی کیا ہے کہ وہ امام المرسلین، مصداق یٰسین و مقصدِ طہٰ کے چچا زاد بھائی ہیں۔

    منم سنی و لیکن از تعصب الاماں گویم

    پسندِ خاطرم انصاف از دنیاد ما فیھا

    میں سنی ہوں مگر تعصب سے پناہ مانگتا ہوں، دنیا اور ما فیہا میں مجھے حق و انصاف ہی پسند خاطر ہے۔

    سخن سنجیدہ می گویم مضامیں چیدہ می گویم

    کتب را دیدہ می گویم چہ باک از طعنۂ اعدا

    میں سنجیدہ بات کہتا ہوں اور منتخب مضامین بیان کرتا ہوں، کتابوں کا مطالعہ کرکے کہتا ہوں مجھے دشمنوں کے طعنے کا کیا خوف ہو سکتا ہے۔

    فدائے احمد آلم، جبیں بر خاک می مالم

    ز دردِ عشق می نالم بہ حکم آیۂ قربیٰ

    میں محمد اور آل محمد کا فدائی ہوں اور اپنی پیشانی خاک پر رگڑ تا ہوں اور ان کے درد محبت میں فریاد کرتا ہوں اور میرا یہ عشق بہ تعمیل حکم آیۃ مودت فی القربیٰ ہے۔

    غلامِ شاہ مردانم، نثارش گوہر جانم

    ہمیشہ منقبت خوانم، بہ طرزِ بلبل شیدا

    میں شاہِ مرداں کا غلام ہوں اور اپنی جان کے موتی ان پر نچھاور کرتا ہوں اور مثال بلبل عاشق ہمیشہ ان کی مدح میں نغمہ سرا ہوں۔

    برائے حضرت زہر اپنے آں ساقیٔ کوثر

    کہ بہر تشنہ کا مانِ قیامت او بود سقا

    حضرت فاطمہ زہرا کا واسطہ اور اس ساقی کوثر کا واسطہ، جو قیامت میں تشنہ کاموں کو (جام کوثر) سے سیراب کرنے والے ہیں۔

    بحق رابع آلِ عبا آں سبز پیراہن

    کہ از باغِ سیادت ذات او سروے سہی بالا

    بحق رابع آلِ عبا حسنِ سبز قبا جو باغ سیادت کے سروِ سہی قد ہیں۔

    برائے آں شہید کربلا کا ندر عزائے او

    زمیں چوں بید می لرز د فلک چوں لالۂ حمرا

    اور اِس شہید کربلا کے طفیل میں کہ جن کی عزاداری میں زمین بید کی طرح لرزاں ہے اور آسمان لالۂ سرخ کی طرح خون روتا ہے۔

    موفق کن بہ توفیقے کہ زو داز فیض تائیدت

    شوم سوئے نجاف را ہے کنم امروز را فردا

    الٰہی مجھے توفیق عطا فرما کہ تیرے فیض کی تائید سے جلدی ہی میں نجف اشرف کی طرف روانہ ہو جاؤں تاکہ جو کل ہونے والا ہے وہ آج ہی ہو جائے۔

    سرور و عزت دارین از بہر محبت او

    عدوئے فاتح خیبر بود در دوجہاں رسوا

    آپ سے محبت کرنے والے کے لئے دو جہاں میں روحانی سرور اور عزت ہے اور فاتح خیبر کا دشمن دونوں جہان میں رسوا ہے۔

    خموش اے احسنؔ ناداں کہ در مدح شہ مرداں

    دبیرِ آسماں گوید نہ دارم طاقت املا

    اے احسنِؔ ناداں مدح شاہِ مرداں میں خاموش ہو جا، دبیر فلک کہتا ہے کہ مجھ میں اب لکھنے کی طاقت نہیں ہے۔

    مأخذ :
    • کتاب : اؤلیائے کرام اور شعرائے عظام آستانۂ مولیٰ علی پر (Pg. 142)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے