دگر ہنگامۂ ماتم، زمیں تا آسمانستے
دلچسپ معلومات
منقبت در شان حضرت علی مرتضیٰ (نجف-عراق)
دگر ہنگامۂ ماتم، زمیں تا آسمانستے
دگر آشوبِ محشر از مکاں تالا مکانستے
زمین سے آسماں تک پھر ایک ہنگامۂ ماتم ہے، مکان سے لا مکاں تک پھر ایک شور قیامت برپا ہے۔
ز ذرہ تا ستارہ شورِ محشر چیست حیرانم
ہمانا ماتمِ آں شمعِ بزم کن فکانستے
حیراں ہوں کہ ذرے سے ستارے تک یہ کیا شور محشر ہے، شاید یہ ماتم شمعِ بزم کن فکان کی وجہ سے ہے۔
زمیں، پا بو تراب و آسمانش یا علی خواند
مسیح و خضر را ایں اسمِ اعظم برز بانستے
زمیں، یا ابو تراب کہتی ہے اور آسمان یا علی پکارتا ہے، مسیح اور خضر دونوں کی زبان پر یہی اسم اعظم ہے۔
زمین و آسماں شد جلوہ گاہِ ذاتِ آں مظہر
عجب رمزی عجیبستے، عجب سرِ نہانستے
زمین اور آسمان اس ذات مظہر کی جلوہ گاہ ہیں یہ نادر رمز ہے اور عجیب سر نہانی ہے۔
چہ در صورت، چہ درمعنی، وصی احمد مرسل
بہ اندازِ وفا کامِل عیارِ امتحانستے
کیا بہ لحاظ ظاہر اور کیا بلحاظ باطن حضرت علی احمد مرسل کے وصی ہیں جو امتحانِ وفا کی کسوٹی پر پورے اترے ہیں۔
شہادت با امامت خفتہ دریک پیرہن ایں جا
مسلماناں امامت را شہادت تو امانستے
یہاں شہادت اور امامت دونوں ایک ہی لباس میں پوشیدہ ہیں، اے مسلمانو! امامت اور شہادت توام (جڑواں) ہیں۔
علی اللٰہیم، رمزِ علی از من چہ می پرسی
علی در ہر مکانستے، علی در لا مکانستے
میں علی کا ہوں، مجھ سے علی کا رمز کیا پوچھتے ہو، علی لا مکاں میں ہیں، علی ہر مکاں میں ہیں۔
علی اول، علی آخِر، علی ظاہر، علی باطن
نہاں اندر عیانستے عیاں اندر نہانستے
علی اول، علی آخر، علی ظاہر اور علی باطن ہیں، علی ہر ظاہر میں نہاں ہیں اور ہر باطن میں عیاں ہیں۔
زر از سربہ مہر اے بے خبر، آں پردہ برگیرم
نہاں اندر نہانستے، عیاں اندر عیانستے
اے بے خبرو! اس راز سربستہ کو آشکار کرتا ہوں کہ علی باطن کے باطن ہیں اور ظاہر کے ظاہر۔
مثالش از کہ می جوئی، نشانش از کہ می پرسی
مثالِ بے مثالستے، نشانِ بے نشانستے
آپ کی مثال کِس سے دریافت کریں، آپ کا نشان کِس سے پوچھیں آپ بے مثال کی مثال ہیں آپ بے نشان کا نشان ہیں۔
گرم کافر نخوانی، واجب ممکن نما خوانم
کہ ذاتش پردہ دار کار گاہِ کن فکانستے
اگر تو مجھے کافر نہ سمجھے تو میں حضرت علی کو، ممکن نما واجب‘‘ کہوں گا کیوں کہ آپ کی ذات کار خانۂ کن فکاں کی پردہ دار ہے۔
خدا گفتم غلط گفتم، خدا را بندہ می گویم
گماں اندر یقینستے، یقیں اندر گمانستے
اگر میں نے علی کو خدا کہہ دیا تو غلط کہا کیوں کہ میں آپ کو خدا کا بندہ مانتا ہوں، میرے یقین کے اندر گمان ہے اور یقین گمان کے اندر ہے۔
فصاحت جو ہر کلکش، بلاغت گوہر سلکش
بسا آیاتِ حکمت، داستاں در داستانستے
فصاحت آپ کے قلم کا جو ہر ہے، بلاغت آپ کی خطابت کا گوہر ہے، آپ کا بیشتر حکیمانہ کلام داستان در داستان ہے۔
زبانش راکہ می فہمد، کلامش را کہ می سنجد
کلامش را زیانِ عقل اول ترجمانستے
آپ کے (حسن) بیان کو کون سمجھ سکتا ہے، عقل اول (یعنی پیغمبر آخر الزماں) کی زبان آپ کے کلام کی ترجمان ہے۔
علی برلب، علی دردل، علی در سر، علی درجاں
علی آں معنیٔ ترکیب وصل جسم و جانستے
لب پر علی ہیں، دل میں علی ہیں، خیال میں علی ہیں، جان میں علی ہیں، ترکیب وصل جسم و جان کے معانی علی ہیں۔
علی گویم علی جویم، علی خوانم، علی خواہم
علی در گیرو دارِ روز محشر قہر مانستے
میں علی کو یاد کرنے والا، علی کی تلاش کرنے والا، علی کو پکارنے والا اور علی کا چاہنے والا ہوں، علی روز قیامت کی دار و گیر کے حاکم ہیں۔
مسلمانم کنم آں جذب پنہانِ علی آخر
کہ ہر تار نفس در پردہ زنارم بہ جانستے
میں مسلمان ہوں، میں اپنے جذب پنہاں کو علی سے اس قدر وابستہ کیے ہوئے ہوں کہ میری سانس کا ہر تار، میری زندگی کا پوشیدہ زنار بنا ہوا ہے۔
اگر از تیر بارانِ حوادث جاں برم مفت است
پلنگ اندر کمینستے خدنگ اندر کمانستے
اگر حوادث کے تیروں کی بارش سے جان بچالے جاؤں تو بھی بے کار ہے کہ موت کا تیندوا تاک لگائے بیٹھا ہے اور کمان میں تیر چھپا ہوا ہے۔
بخود پیچیدہ ام، کارے نہ کردم فتنہ زد را ہم
نہ دنیایم، نہ عقبائیم، نہ انیستے نہ آنستے
میں پیچ و تاب میں ہوں کہ کوئی اہم کام نہ کرسکا اور فتنوں کی راہ میں الجھ کے رہ گیا تو میری دنیا بنی نہ آخرت سنور سکی نہ یہ حاصِل ہوا نہ وہ۔
قفس بشکست و بر پروازِ ما برق بلا خندد
کہ مرغِ روح ماحسرت کشاں مرگ آشیانستے
قفس ٹوٹ گیا اور ہمارے عزم پرواز پر برقِ بلا مسکراتی ہے کہ ہمارا طائر روح حسرت زدہ اپنے آشیانے میں موت کا شکار ہو گیا۔
چہ غم داریم از موج حوادث ماسیہ کاراں
نگاہش زورقِ امیدِ مارا باد بانستے
ہم گنہگاروں کو بھلا موج حوادث کا کیا خوف ہو سکتا ہے کہ ان کی نگاہِ (کرم) ہماری امیدوں کی کشتی کا بادباں ہے۔
گرامیؔ بخ بخ امشب مدعی را سر قلم کردہ
زبانِ خامہ اش بہ بہ چہ تیغ اصفہانستے
گرامیؔ! آج رات تیری بکواس نے مدعی کا سراڑا دیا، کیا کہنے تیری زبان قلم کے جو اس کے لیے اصفہانی تلوار بن گئی ہے۔
- کتاب : اؤلیائے کرام اور شعرائے عظام آستانۂ مولیٰ علی پر (Pg. 275)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.