کسی نے اٹھ کے لذتوں سے دامن اپنا بھر لیا
کسی نے اٹھ کے لذتوں سے دامن اپنا بھر لیا
کسی نے تیر عشق سے جگر میں چھید کر لیا
تصور حیات پل گیا الم کی گود میں
ابد کی نیند سو گیا بشر عدم کی گود میں
ادب کی خامکاریاں نظر کی خامکاریاں
غرض شمار کیا کریں بشر کی خامکاریاں
زمانہ ہو گیا اسی ڈگر پہ کائنات ہے
اندھیری رات ہے یہاں، وہاں اندھیری رات ہے
مگر یہ آج کیا ہوا کہ ظلمتیں ہی چھٹ گئیں
بساط غم الٹ گئی مصیبتیں پلٹ گئیں
مگر یہ آج کیا ہوا سکوں سا دل کو مل گیا
کہاں گئیں رعونتیں کہاں غرور سو گیا
مگر یہ آج کیا ہوا، ہوا میں گدگدی سی ہے
سموم میں اثر نہیں فضا میں گدگدی سی ہے
مگر یہ آج کیا ہوا کہ سہل ہوگئی حیات
خرد کو راز مل گیا نظر نے کہہ دی دل کی بات
مگر یہ آج کیا ہوا طبیعتوں میں ڈر نہیں
کسی بھی کاروبار میں حسود کا گذر نہیں
مگر یہ آج کیا ہوا سرشت کائنات کو
کہ اوج بخشنے لگی تصور حیات کو
مگر یہ آج کیا ہوا کہ ضو سے زیست بھر گئی
ضیائے مہر زندگی ہر اک طرف بکھر گئی
یہ سب کو ایک جان سا بنا لیا گیا ہے کیوں
یہ سب کو ایک تار میں پرو دیا گیا ہے کیوں
مگر حیات میں یہ کیا قرار سا اتر گیا
چمن کا رنگ ریتیلی فضا میں کیسا بکھر گیا
شگفتہ ہے کلی کلی حسین پھول پھول ہے
یہ روزِ بے مثال ہے ولادت رسول ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.