محمد کملی والے کو خدا سے کھیلتے دیکھا
خلیل اللہ کو آتش فشاں سے کھیلتے دیکھا
ذبیح اللہ کو حق کی رضا سے کھیلتے دیکھا
کلیم اللہ کو انی انا سے کھیلتے دیکھا
حلیمہ کو محمدؐ مصطفیٰ سے کھیلتے دیکھا
محمد کملی والے کو خدا سے کھیلتے دیکھا
جناب ایوب کو صبر و رضا سے کھیلتے دیکھا
لب منصور کو حق کی صدا سے کھیلتے دیکھا
پشیمانیٔ آدم کو دعا سے کھیلتے دیکھا
ولی و انبیا کو ہر بلا سے کھیلتے دیکھا
محمدؐ کے نواسوں کو قضا سے کھیلتے دیکھا
محمدؐ کی سواری جب کہ سدرۃ المنتہیٰ پہنچی
تو امت کے معاصی کے لیے پیش اک عرضی
موافق میں نبی کے جب خدا نے پوری ہر ضد کی
بجز پیارے نبیؐ کے یہ فضیلت اور کس کو تھی
محمدؐ کو شب اسریٰ خدا سے کھیلتے دیکھا
محمدؐ کملی والے کو خدا سے کھیلتے دیکھا
وہ براق جس پہ پڑی تھی جل
تھا لیے ہوئے وہ سرور مل
چڑھے اس پہ آ کے شہ رسل
تو اڑا وہ صورت بوئے گل
کیا طے جو اس نے ہوا کا پل
تو فلک پہ بجنے لگے دہل
تھے فرشتے شہ کے جلو میں کل
تھا ہٹو بڑھو کی عوض یہ غل
محمدؐ کملی والے کو خدا سے کھیلتے دیکھا
سنائیں آج ہم تم کو شب معراج کا قصہ
عرش کے نزدیک پہنچے جب شہ ہر دوسرا
اور چاہا کہ کریں نعلین پاؤں سے جدا
یک بہ یک وحدت کے پردے سے لگی آنے ندا
کیوں رکے آؤ معہ نعلین احمد مصطفیٰ
کانپتا ہے عرش دیکھو طالب نعلین ہے
چوم لینے دو اسے نعلین یہ بے چپن ہے
تب کہا حضرت نے حق سے اے مرے پروردگار
تیرے اس لطف و کرم پر میرا جان و دل نثار
حکم موسیٰ کو ہوا تھا طور پر کہ ہوشیار
میرے جلووں کا ادب کر پاؤں سے نعلین اتار
اور مجھ پہ یہ کرم تیرا خدائے بحر و بر
تو نے بلوایا مجھے نعلین پہنچے عرش پر
پھر ندا آئی ذرا اس بات پر بھی غور ہو
تم کہاں موسیٰ کہاں وہ اور تھے تم اور ہو
وہ نبی تھے یا محمدؐ تم ہمارے نور ہو
بات کل کی بھولتے ہو خود چراغ طور پر
تم پہ صدقے یوسف و یعقوب بلکہ ہر نبی
وہ فقط طالب تھے تم طالب بھی ہو مطلوب بھی
محمدؐ کملی والے کو خدا سے کھیلتے دیکھا
محمدؐ کے نواسوں کو قضا سے کھیلتے دیکھا
جس گھڑی وہ لال سنگ ظلم سے توڑا گیا
یعنی اس کے حلق پر اک خنجر براں چلا
اک کبوتر لوٹ کر ان کے لہو میں اڑ گیا
جا کے گنبد پر رسول اللہؐ کے کہنے لگا
یا محمدؐ کربلا میں لوٹا بیچارہ گیا
آپ کا پیارا نواسا سجدے میں مارا گیا
جس جگہ لیتے تھے بوسے تم حبیب کردگار
اس جگہ ظالم نے پھیرا خنجر خوں آب دار
محمدؐ کے نواسوں کو قضا سے کھیلتے دیکھا
حاکم کا حکم یہ ہے کہ پانی بشر پئیں
گھوڑے پئیں سوار پئیں جانور پئیں
کافر تلک پئیں تو منع تو نہ کیجیو
اک فاطمہ کے لال کو پانی نہ دیجیو
اس نے حق کربلا میں ادا کر دیا
اپنے نانا کا وعدہ وفا کر دیا
گھر کے گھر کو سپرد قضا کر دیا
سب کچھ امت کی خاطر فدا کر دیا
ہائے وہ شکل نوری مٹائی گئی
پیاس تیروں سے جس کی بجھائی گئی
صرف چھ ماہ کی عمر پائی گئی
نام تھا جس کا مشہور قاسم بنا
اس کی شادی کا ارمان دل میں رہا
اس کے سر پر شہادت کا صحرا بندھا
جمعہ کا روز تھا یارو دوپہر ڈھلتی تھی
چھری حسین کے پیاسے گلے پہ چلتی تھی
محمدؐ کے نواسوں کو قضا سے کھیلتے دیکھا
- کتاب : سرودِ روحانی (Pg. 149)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.