اگر نہ ہوتا ترا آستاں غریب نواز
اگر نہ ہوتا ترا آستاں غریب نواز
غریب کا تھا ٹھکانا کہاں غریب نواز
غم جہاں کے ستائے ہیں پر آئے ہیں
تمہارا در ہے کہ دارلاماں غریب نواز
مریض غم ہیں کوئی چارہ گر نہیں ملتا
ہم اپنا داغ دکھائیں کہاں غریب نواز
یہ در وہ در ہے جہاں زندگی سنورتی ہے
یہاں سے جائیں تو جائیں کہاں غریب نواز
ہر آدمی یہاں دل سے یقیں رکھتا ہے
کہ سن رہے ہیں مری داستاں غریب نواز
رسولِ پاک کے صدقہ میں راہ دکھلا دو
بھٹک رہا ہے مرا کارواں غریب نواز
جلائے جاتے ہیں پھر آشیاں غریبوں کے
پھر اُٹھ رہا ہے چمن سے دھواں غریب نواز
یہ شان بندہ نوازی تو دیکھئے ان کی
وہیں غریب کھڑے ہیں جہاں غریب نواز
ہمارے سامنے اک روز یوں بھی آجاؤ
کوئی حجاب نہ ہو درمیاں غریب نواز
زباں ترستی ہے مدت سے گفتگو کے لئے
کہاں سے لاؤں میں حسنِ بیاں غریب نواز
کہاں میں اور کہاں رازؔ دامنِ خواجہ
کہ میں زمین ہوں اور آسماں غریب نواز
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.