آنکھیں کھل جائیں جو ظاہر ہو مقام_وارث
آنکھیں کھل جائیں جو ظاہر ہو مقام وارث
کان ہو جائیں جو سن لے کوئی نام وارث
جام کوثر کے نہ واعظ سر محفل چھلکا
ہم قدح خوار پئے بیٹھے ہیں جام وارث
ہو محبت تو نہیں کافر و دیندار میں فرق
ہے یہی عشق کے بندوں سے پیام وارث
وہ بھی اس طرح انہیں یاد نشیمن نہ چمن
طائر دل ہیں ہزاروں تہ جام وارث
ہو قیامت نہ کہیں پائے نظر سے پامال
مری آنکھوں میں ہے انداز خرام وارث
دھوپ پڑنے نہیں دیتا ہے ادب سے خورشید
سایۂ عرش بریں ہے سر بام محبت
بوئے گل جا بھی یہاں کام نہیں ہے تیرا
کہ باس اور ہی بو سے ہے مشام وارث
جان پڑ جاتی ہے ایمان کا شرف ملتا ہے
کلمہ پڑھتے ہیں یہ بت سن کے کلام وارث
گل پئیں دھو کے نسیم سحری کے تلوے
یہ مدینے کو جو لے جائے سلام وارث
سرد سے اس کی بلندی کوئی ہوگی سو سرد
دور طوبیٰ ہے کہ ہے گنبد بام وارث
صدقے میں ساقیٔ کوثر کے دعا ہو یہ قبول
نزع میں پیاس بجھائے مئے جام وارث
نگہ لطف کا طالب ہے ریاکار ریاضؔ
گو ریاکار ہے لیکن ہے غلام وارث
- کتاب : تذکرہ شعرائے وارثیہ (Pg. 102)
- مطبع : فائن بکس پرنٹرس (1993)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.