درِ شہ سے کمتر ہے اوج آسماں کا
درِ شہ سے کمتر ہے اوج آسماں کا
کہ ہر ذرہ ہے مہرِ تاباں وہاں کا
مکیں ہے محمد کے جو آستاں کا
وہ طالب نہیں قیصرباغِ جناں کا
تیرے نامِ نامی نے اللہ اکبر
بڑھایا ہے کس درجہ رتبہ اذاں کا
تمنا یہ ہے لب پہ ہو نامِ حضرت
سفر تن سے جس دم ہو روحِ رواں کا
سواری تری عرش پر جب گئی تھی
کشادہ تھا ہر ایک در آسماں کا
حقیقت فقط اتنی اس شب کھلی تھی
پتہ دے رہے تھے ملک لامکاں کا
یہی آرزو ہے مٹوں تیری رہ میں
میں خواہاں نہیں اپنے نام و نشاں کا
نگاہوں میں میری وہ ہے سنگِ اسود
جو پتھر ہے اے شہ ترے آستاں کا
ترے کوچۂ رشکِ جنت کے آگے
گلستاں ہے کیا باغِ رضواں کہاں کا
مقیمِ درِ مصطفیٰ جو نہیں ہے
نہ ہے وہ زمیں کا نہ ہے آسماں کا
اٹھوں قبر سے تھام کر تیرا دامن
نہیں مجھ کو درکار حلہ جناں کا
سرِ حشر بس تیرے قدموں پہ سر ہو
ہے کیا تختِ جم تاجِ کسرا کہاں کا
ملا اس طرح حق سے معراج میں تو
فقط فاصلہ رہ گیا دو کماں کا
درِ شہ پہ قیصرؔ چلو جبہ سا ہو
نہ لو نام بھولے سے ہندوستاں کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.