لکھ رہا ہوں آج وصفِ کار زار مرتضیٰ
لکھ رہا ہوں آج وصفِ کار زار مرتضیٰ
المدد اے قوت پروردگار مرتضیٰ
کھینچ کر تصویر روئے نور بار مرتضیٰ
چشم قدرت بن گئی آئینہ دار مرتضیٰ
بدر میں دو بجلیاں گرتی تھیں اللہ رے کمال
جب چمکتا تھا ہلالِ ذوالفقارِ مرتضیٰ
دے نجف میں بادۂ تو حید اے ساقی مجھے
کیا گھٹا اٹھی ہے سوئے کوہسار مرتضیٰ
لوٹتے تھے لڑکے جب تو حضرت خیر البشر
پونچھتے تھے اپنے دامن سے غبارِ مرتضیٰ
جنگ میں چار آئینہ والے جو کھاتے تھے شکست
ہر جری ہوتا تھا کیا حیران کارِ مرتضییٰ
مہر کی کلغی جو تھی تو کہکشاں کا زیر بند
سازو ساماں تھے یہ بہرِ راہوارِ مرتضیٰ
لشکرِ اسلام میں اک عید نصرت ہوگئی
جب نکل آیا ہلالِ ذوالفقارِ مرتضیٰ
دیکھتی تھی فتح ونصرعت منہ بوقتِ کار زار
کیا صفائی تھی میانِ ذوالفقارِ مرتضیٰ
خاک میری ہند سے سوئے نجف لے جائیو
اے نسیمِ روضۂ عالی وقارِ مرتضیٰ
غل ہوا شبنم کے قطرے ہیں گلِ خورشید پر
جب عرق لائی جبین نور بارِ مرتضیٰ
دیکھ اے نرگس چلا آنکھوں سے میں سوئے نجف
رفتہ رفتہ بڑھ گیا یہ انتظارِ مرتضیٰ
تھر تھرا جاتی تھی ہیبت سے بنائے قصرِ دیر
جب اذاں ہوتی تھی بالائے حصار مرتضیٰ
بڑھ کے سرشارِ مئےِ کوثر کرےگا خلد میں
قطرۂ دریائے لطف بے شمارِ مرتضیٰ
رحم قاتل پر بھی آجاتا تھا غصے کے عوض
تجھ پہ قرباں اے مزاج بردبارِ مرتضیٰ
ہے مرے قبضے میں سیفی عاملِ سیفی ہوں میں
تھا یہی وردِ زبانِ ذوالفقارِ مرتضیٰ
چرخ چارم مہر کا اورنگ شاہی کیوں نہ ہو
یہ بھی ہے قیصرؔ غلامِ تاجدارِ مرتضیٰ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.