روز عاشورہ عجب اک سانحہ ہونے کو ہے
روز عاشورہ عجب اک سانحہ ہونے کو ہے
ظلم اور جور و جفا کی انتہا ہونے کو ہے
یہ جو لالی ہے فلک پر چار سو چھائی ہوئی
یہ بتاتی ہے ہمیں ایک حادثہ ہونے کو ہے
قافلہ صبر و وفا کا ہے سر مقتل کھڑا
صابروں کے صبر کا اب امتحاں ہونے کو ہے
گھر گیا دریا کنارے اک حسین و دلربا
چاند سا مکھڑا لب دریا ذبح ہونے کو ہے
کس طرح لائے کوئی اس شاہزادے کا بدن
ٹکڑے ٹکڑے جسم کے جس کے جدا ہونے کو ہے
برچھیاں چھلنی کرے ہے ایک کمسن کا جگر
باپ کی آنکھیں لہو سے اب رواں ہونے کو ہے
کر کے سجدہ شکر کا رب سے مخاطب یوں ہوا
دیکھ لے بندہ ترا تجھ پر فدا ہونے کو ہے
کان سے بی بی کی کھینچی جا چکی ہیں بالیاں
خون سے لت پت حسین و مہ لکا ہونے کو ہے
طوق اور زنجیر میں جکڑا ہوا بیمار ہے
کربلا سے شام کی اب ابتدا ہونے کو ہے
جس کی خاطر خاص ہے وصف حجاب کبریا
خاک اڑاؤ اس کی بیٹی بے ردا ہونے کو ہے
جس کی خاطر رب نے کوثر کو اتارا ہے حسنؔ
ہائے تشنہ لب وہی اک قافلہ ہونے کو ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.