Sufinama

در شرحِ اسرار اسمائے علی مرتضیٰ

علامہ اقبال

در شرحِ اسرار اسمائے علی مرتضیٰ

علامہ اقبال

MORE BYعلامہ اقبال

    دلچسپ معلومات

    حضرت علی مرتضیٰ کے ناموں کے اسرار کی شرح۔

    مسلم اول شہِ مرداں علی

    عشق را سرمایۂ ایماں علی

    مسلمانوں میں سب سے پہلے اور بہادروں کے سردار حضرت علی ہیں اور عشق کے لیے آپ کی ذات سرمایۂ ایمان ہے۔

    از ولائے دو دمانش زندہ ام

    در جہاں مثل گہر تا بندہ ام

    انہیں کے خاندان سے محبت کی وجہ سے میں زندہ ہوں اور دنیا میں موتی کی طرح چمک رہا ہوں۔

    نرگسم وارفتہ نظارہ ام

    در ریاض او چو بو آراوہ ام

    میں نرگس ہوں اور نظارے کے لیے بیتاب ہوں اور ان کے چمن میں مثل بو آوارہ ہوں۔

    زمزم ارجو شد زخاکِ من از دست

    مے اگر ریزد زتاکِ من از دست

    اگر میری خاک سے زمزم ابل رہا ہے تو یہ انہیں کی وجہ سے ہے۔

    خاکم و از مہرِ او آئینہ ام

    می تواں دیدن نوادر سینہ ام

    اگر میرے انگور کی بیل سے شراب ٹپک رہی ہے تو یہ بھی انہیں کے سبب ہے۔

    از رخ او فال پیغمبر گرفت

    ملت حق از شکو ہش فر گرفت

    میں خاک ہوں اور ان کی محبت سے آئینہ ہوگیا ہوں، یہاں تک کہ میرے سینہ میں موجود صدا دیکھی جاسکتی ہے۔

    قوتِ دین مبیں فرمودہ اش

    کائنات آئیں پذیر از دودہ اش

    ان کے چہرے سے پیغمبرِ خدا فال لیتے تھے اور خدا پرست ملت نے انہیں کی شان و شکوہ سے شوکت و عظمت حاصل کی ہے۔

    مرسل حق کرد ناہش بو تراب

    حق یداللہ خواند در ام الکتاب

    ان کا قول ہمارے واضح دین کی قوت ہے، انہیں کے عطیہ سے کائنات زیر آئین ہے۔

    ہر کہ دانائے رموز زند گیست

    سر اسمائے علی داند کہ چیست

    خدا کے رسول نے انہیں ”بو تراب“ نام دیا اور خدا نے قرآن میں ”یداللہ“ (اللہ کا ہاتھ) کہا۔

    خاک تاریکے کہ نامِ او سن است

    عقل از بیداد او در شیون است

    جو شخص زندگی کے رازوں سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ حضرت علی کے ناموں کے راز کیا ہیں۔

    فکرِ گردوں رس زمیں پیما ازد

    دیدہ اعمیٰ گوش ناشنو ازد

    وہ تاریک مٹی جس کا نام جسم ہے، عقل اس کے ستم سے آہ و فریاد کر رہی ہے۔

    از ہوس تیغِ دور و دار دبدت

    رہروان را دل بریں رہزن شکست

    آسمان پر پہچنے والی فکر اس کی وجہ سے زمین بوس ہے اور اسی سے آنکھ اندھی اور کان بہرے ہیں۔

    شیرِ حق ایں خاک را تسخیر کرد

    ایں گل تاریخ را اکسیر کرد

    ہوس کی دو دھاری تلوار اس نے ہاتھ میں اٹھا رکھی اور اس رہزن کی وجہ سے راہ چلنے والوں کے دل ٹوٹ گئے ہیں۔

    مرتضیٰ کز تیغ او حق روشن پرست

    بو تراب از فتح اقلیم بن است

    شیرِ خدا (حضرت علی) نے اس خاکی جسم کو تسخیر کرلیا اور اس بے نور مٹی کو اکسیر بنا دیا۔

    در جہاں ہر فتح از کراری است

    آبروئے مرد از خود داری است

    حضرت علی مرتضیٰ کہ جن کی تلوار سے حق روشن ہے، وہ ”بو تراب“ (مٹی کے باپ) جسم کے ملک کو فتح کرنے کی وجہ سے ہیں۔

    ہر کہ در آفاق گز دو بو تراب

    باز گرداند زمغرب آفتاب

    جس نے ملکوں کو فتح کیا (اس کی فاتحانہ حیثیت اپنی کراری کی وجہ سے ہے) اس کے گوہر کے لیے آبرو اس کی خودداری ہے۔

    ہر کہ زین بر مرکب تن تنگ بست

    چوں نگین بر خاتم دولت نشست

    جو بھی دنیا میں (حضرت علی کی طرح اپنے جسم پر فتح پا کر) بو تراب ہوگیا وہ (حضرت علی کے مثل) سورج مغرب سے پھر واپس لوٹا سکتا ہے۔

    زیر پاش ایں جا شکوہ خیبر است

    دستِ او آنجا قسیم کوثر است

    جس نے جسم کے گھوڑے پر زین کس لیا وہ سلطنت کی انگوٹھی پر مینہ کی طرح پیوست ہوگیا۔

    از خود آگاہی ید اللہی کند

    از ید اللہی شہنشاہی کند

    ذاتِ او دروازہ شہر غلوم

    زیر فرمانش حجاز و چین و روم

    یہاں اس کے قدموں کے نیچے خیبر کی شان و شوکت ہے تو وہاں اس کا ہاتھ جام کوثر تقسیم کرتا ہے۔

    حکمران باید شدن بر خاک خویش

    تامے روشن خوری از تاک خویش

    خود آگاہی سے وہ اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے اور اللہ کا ہاتھ بن کر شہنشاہی کرتا ہے۔

    خاک گشتن مذہب پروانگی است

    خاک را اب شو کہ ایں مردانگی است

    اس کی ذات علوم کے شہر کا دروازہ بن جاتی ہے، حجاز چین اور روم اس کے فرماں بردار ہوتے ہیں۔

    سنگ شوا ہے ہمچو گل نازک بدن

    تا شو ہی بنیاد دیوار چمن

    اپنے جسم خاکی پر حکمران ہونا چاہیے تاکہ تو اپنی انگور کی بیل سے شفاف شراب پی سکے۔

    از گل خود آدمے تعمیر کن

    آدمے را عالمے تعمیر کن

    خاک ہوجانا پروانے کا طریقہ ہے، مٹی کا باپ ہونا یہی مردانگی ہے۔

    گربنا سازی نہ دیوار و درے

    خشت از خاک تو بند و دیگرے

    اے کہ تو پھول کی طرح نازک بدن ہے، پتھر بن تاکہ چمن کی دیوار کے لیے بنیاد بنے۔

    اے ز جور چرخ ناہنجار تنگ

    جامِ تو فریادی بیداد سنگ

    اپنی خاک سے ایک نیا انسان پیدا کر اور اس انسان کے لیے ایک نئی دنیا بنا۔

    نالہ و فریاد و ماتم تا کجا

    سینہ کو بیہائے پیہم تا کجا

    اگر تو نے اپنی خاک سے دیوار و در نہ بنائے تو کوئی اور اس سے اینٹیں بنالے گا۔

    در عمل مخفی است مضمونِ حیات

    ذوقِ تخلیق است قانون حیات

    تو بد اصل آسمان کے ستم سے تنگ ہے اور تیرا جام پتھر کے ظلم کا فریادی ہے۔

    خیز و خلاق جہان تازہ شو

    شعلہ در برکن خلیل آوازہ شو

    یہ نالہ، فریاد اور ماتم کب تک اور یہ مسلسل سینہ پیٹنا کب تک۔

    با جہان، تا مساعد ساختن

    ہست در میدان سپر انداختن

    عمل میں زندگی کا مضمون پوشیدہ ہے تخلیق کی لذت، زندگی کا قانون ہے۔

    مرد خود دارے کہ پاشد پختہ کار

    با مزاج او بسازد روزگار

    اٹھ اور ایک نئی دنیا کا خالق بن، آگ کو آغوش میں لے لے اور حضرت ابراہیم جیسا نعرۂ حق لگا۔

    آزماید صاحب قلب سلیم

    ہمتش راز مہمات عظیم

    ناموافق دنیا سے بنائے رکھنے کا مطلب ہے میدان میں اپنے ہتھیار ڈال دینا۔

    عشق باد شوا روزیدن خوش است

    چوں خلیل از شعلہ گل چیدن خوش است

    وہ خود دار مرد جو پختہ کار ہو جاتا ہے، اس کے مزاج کے مطابق زمانہ خود کو بناتا ہے۔

    ممکنات قوت مردان کار

    گرد و از مشکل پسندی آشکار

    اگر زمانہ خود کو اس کے مزاج کے مطابق نہ بنائے تو وہ مرد آسمان سے جنگ پر تیار ہوجاتا ہے۔

    حربہ دوں و ہمات کیں است او بس

    زندگی را ایں یک آئینہ است او بس

    وہ عالم موجودات کی بنیاد کھود ڈالتا ہے اور ذرا ت کو نئی ترکیب دیتا ہے۔

    زندگانی قوت پیداستے

    اصل او از ذوقِ اسنتیلاستے

    زمانے کی گردش کو درہم برہم کر دیتا ہے اور نیلے آسمان کو الٹ پلٹ کر دیتا ہے۔

    عفوِ بیجا سردی خون حیات

    سکتہ در بیت موزون حیات

    وہ اپنی طاقت سے ایک ایسا زمانہ ظاہر کرتا ہے جو موافق ہوتا ہے۔

    ہر کہ در قعرِ مذلت ماندہ است

    ناتوانی وا قناعت خواندہ است

    اگر دنیا میں مردانہ وار زندگی ممکن نہ ہو تو اس کے لیے جواں مردوں کی طرح اپنی جان دے دینا ہی زندگی ہے۔

    ناتوانی زندگی را رہزن است

    بطنش از خوف و دروغ بستن آست

    جو قلب سلیم کا مالک ہوتا ہے وہ بڑی بڑی مہموں کے ذریعے اپنا زور آزماتا ہے۔

    از مکارم اندرون او تہی است

    شیرش از بہر ذمائم فربہی است

    عشق مشکل چیزوں کے ساتھ کشمکش سے خوش ہوتا ہے، حضرت ابراہیم کی طرح وہ شعلوں سے پھول چن کر مسرت محسوس کرتا ہے۔

    ہوشیاراے صاحب عقل سلیم

    در کمینہا می نشیند ایں غنیم

    میدان عمل کے جواں مردوں کے قوت کے امکانات ان کی شکل پسندی سے ظاہر ہوتے ہیں۔

    گر خرد مندی فریب او مخوار

    مثل حربا ہر زماں رنگش دگر

    پست ہمتوں کا ہتھیار بس کینہ ہے زندگی کا صرف یہی ایک سا فون ہے۔

    شکلِ او اہلِ نظر نشنا ختند

    پردہ ہا بر روئے او انداختند

    (یعنی) زندگی اس قوت کا نام ہے جو ظاہر ہو، اس کی اصل غالب اور بر تر ہونے کا ذوق ہے۔

    گاہ او را رحم و نرمی پردہ دار

    گاہ می پوشد ردائے انکسار

    بے جا معانی کے رجحان سے زندگی کے خون میں سردی آجاتی ہے، جیسے زندگی کے موزوں شعر میں سکتہ واقع ہو جائے۔

    گاہ او مستور در مجبوری است

    گاہ پنہاں در تہِ معذوری است

    جو شخص ذلت کی گہرائی میں پڑا ہوا ہے وہ اپنی توانائی کو قناعت کہتا ہے۔

    چہرہ در شکلِ تن آسانی نمود

    دل زدستِ صاحبِ قوت ربود

    ناتوانی زندگی کے لئے ایک رہزن ہے، اس کے بطن میں خوف اور چھوٹ پنپتے ہیں۔

    باتوانائی صداقت تو ام است

    گر خود آگاہی ہمیں جام جم است

    اس کا باطن اچھے اوصاف سے خالی ہے، اس کے دودھ سے برائیاں فربہ ہوتی ہیں۔

    زندگی کشت است او حاصل قوت است

    شرح رمز حق و باطل قوت است

    اے عقل سلیم رکھنے والے ہوشیار رہ! کمزوری کا یہ دشمن طرح طرح گھات لگاتا ہے۔

    مدعی گر صاحب قوت بود

    دعویش مستغنی از حجت بود

    اگر تو عقل مندی ہے تو اس کا دھوکہ نہ کھا، وہ (کمزوری) ہر زمانے میں گرگٹ کی طرح نیا رنگ بدلتی ہے۔

    باطل از قوت پذیر دن شاہ حق

    خویش را حق داند از بطلانِ حق

    نظر رکھنے والے اس کی شکل نہیں پہچانتے، اس کے چہرے پر طرح طرح کے پردے پڑے ہیں۔

    از کن او زہر کوثر می شود

    خیر را گوید شری شر می شود

    کبھی اس پر رحم اور نرمی پردہ ڈالتے ہیں اور کبھی انکساری کی چادر اسے چھپاتی ہے۔

    اے ز آداب امانت بے خبر!

    از دو عالم خویش را بہتر شمر!

    کبھی وہ مجبوری میں چھپی ہوتی ہے، کبھی وہ معذوری میں پوشیدہ ہوتی ہے۔

    از رموزِ زندگی آگاہ شو

    ظالمِ و جاہل زغیراللہ شو

    وہ تن آسانی کی شکل میں اپنا چہرہ دکھاتی ہے اور قوت رکھنے والوں کے ہاتھ سے دل چھین لیتی ہے۔

    چشم و گوش و لب کشا اے ہوش مند

    گرنہ بینی راہِ حق برمن بخند

    سچائی، توانائی کے ساتھ جڑواں ہے، اگر تو اپنے سے آگاہ ہو جائے تو یہی جمشید کا پیالہ ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے