مرحبا اے بلبلِ باغ کہن
مرحبا اے بلبلِ باغ کہن
از گل رعنا بگو با ما سخن
آؤ آؤ اے بلبل پرانے باغ کی
خوشنما گل کی بات ہم سے کہہ
مرحبا اے قاصدِ طیار ما
میدہی ہر دم خبر از یار ما
شاباش اے ہمارے تیز زبان قاصد
تو ہر دم ہمارے یار کی خبر دیتا ہے
مرحبا اے ہد ہد فرخندہ فال
مرحبا اے طوطیِ شکر مقال
کیا کہنے ہیں تیرے اے مبارک شگون ہدہد
کیا خوب ہے تو اے شیریں گفتار طوطی
درزماں ہفت آسماں را طے کنی
مرکبِ حرص و ہوا را پے کنی
ایک دم میں تو سات آسمانوں کو طے کرتی ہے
حرص اور ہوا کے گھوڑے کو پامال کرتی ہے
دمبدم روشن کنی در دل چراغ
ہر نفس از عشق سازی سینہ داغ
ہر دم تو دل میں چراغ روشن کرتی ہے
ہر دم تو عشق سے سینہ کو داغ دار کرتی ہے
از تو روشن گشت فانوسِ تنم
از تو حاصل شد مرا وصلِ صنم
تجھ سے میرے تن کی فانوس روشن ہوئی
تجھ سے محبوب کا وصل مجھ کو نصیب ہوا
مرحبا اے رہنمائے راہِ دیں
از تو روشن شد مرا چشمِ یقیں
واہ واہ اے دین کی راہ کی رہنما
تجھ سے میری یقین کی آنکھ روشن ہوئی
یافت قالب طینت پاکی زتو
زد پریشاں آدمِ خاکی زتو
جسم نے پاکیزہ خو تجھ سے پائی
آدم خاکی تیرے سبب سے پریشان ہوا
مرحبا اے فیض بخشِ کائنات
یافت ترکیب از وجودِ تو حیات
تیری کیا تعریف کی جائے اے موجودات کی فیض بخشنے والی
تیری ذات سے جسم نے زندگانی پائی
غرق بودی در محیطِ ذات پاک
از تو روشن شد چرا ایں تیرہ خاک
تو خدا کی پاک ذات کے سمندر میں غرق تھی
یہ تاریک خاک تجھ سے کس کے لئے روشن ہوئی
اے کہ بودی در حریم لامکاں
چوں جدا گشتی بگو ،را زِنہاں
اے کہ تولا مکان کی چار دیواری میں تھی
تو کیوں جدا ہوئی یہ پوشیدہ بھید بتا
پاک بودی در حریم کبریا
از چہ پیدا شد ترا حرص و ہوا
تو حریم کبریا میں پاک تھی
کس سبب سے تجھ میں یہ حرص و ہوا پیدا ہوئی
خوش خرامیدی تو از کتمِ عدم
خوش نہادی بر سرِ ہستی قدم
بڑی خوشی کے ساتھ آئی تو نیستی کے پردے سے
بڑی خوشی کے ساتھ تو نے ہستی کے سر پر قدم رکھا
گاہ در دوزخ روی سازی مقام
گاہ در جنت روی اے خوش خرام
کبھی تو دو زخ میں جاتی ہے اور اس کو اپنی قیام گاہ بناتی ہے
کبھی اے خوش رفتار تو جنت میں جاتی ہے
گہہ کنی جلوہ در اقلیمِ فنا
گہہ روی در عالمِ ملکِ بقا
کبھی تو نیستی کی ولایت میں جلوہ کرتی ہے
کبھی زندگی کے ملک کے جہان میں جاتی ہے
جانِ من بامن بگو اسرار خویش
چشمِ دل روشن کن از دیدار خویش
میری پیاری تو مجھ سے اپنے بھید کہہ
دل کی آنکھ صورت سے روشن کر
آفریدہ حق ترا از جنسِ جاں
از تو افتا دست شوراند رجہاں
خدانے تجھ کو اس قسم کی چیزوں سے پیدا کیا جو نظر نہیں آتیں
تجھ سے جہان میں شور مچ رہا ہے
باز گو با ماسخن اے اہلِ راز
ازحقیقت غلغل افگن در مجاز
اے راز دار ہم سے بات کھلم کھلا صاف صاف کہہ
اصل کا نقشہ دکھلا کر شور مچوا دے اس بے بنیاد عالم میں
خاک افشان برسر نفسِ لعیں
چشمِ دل روشن کن از نورِ یقیں
اس ملعون نفس کے سر پر خاک ڈال
دل کی آنکھ کو یقین کی روشنی سے روشن کر
ہمچو آئینہ نما عکسِ نگار
تا نماند جلوۂ رخسارِ یار
محبوب کا عکس آئینے کی طرح دکھا
تاکہ یار کے رخسار کا جلوہ نظر آوے
صاف کن آئینۂ دل از غبار
آتشے زن در دل ایں بے قرار
دل کے آئینے کو غبار سے صاف کر
اس بے قرار کے دل میں عشق کی آگ بھڑکا
رہ نما اے ہادیِ نور ہدیٰ
زانکہ ہستی در حقیقت رہ نما
اے راستی کی راہ کے رہنما راستہ دکھلا
اس لئے کہ تو حقیقت کی طرف راستہ دکھلانے والی ہے
گرنہ گردی طالباں را دستگیر
طالبان ہر گز نگیر ند دستِ پیر
اگر تو طلب کرنے والوں کی مددگار نہ بنے
طلب کرنے والے ہر گز پیر کا ہاتھ نہ پکڑیں
از تو روشن کوکبِ ایمانِ من
پردہا بردار از رخ جانِ من
تجھ سے میرے ایمان کا ستارہ روشن ہوا
پردے اٹھا دے رخ سے جان میری
در سخن شد عندلیب بانوا
گفت بشنو تابگویم راز ہا
خوش گفتار بلبل بولی
کہا سن تاکہ میں بھیدوں کو بیان کروں
آفریدہ حق مرا از نور ذات
تا شناسم ذات اورا از صفات
خدا نے مجھ کو اپنی ذات کے نور سے پیدا کیا
تاکہ اس کی ذات کو صفات سے پہچانوں
بودہ ام در باغِ وحدت بے نشاں
چوں بکثرت آمدم گشتم عیاں
میں وحدت کے باغ میں بے نشان تھی
جب دنیا میں آئی تو ظاہر ہوئی
ہیچ میدانی پسِ ایں پردہ کیست
نغمۂ و چنگ ورباب و عود چیست
تو کچھ جانتا ہے کہ اس پردے کے پیچھے کون ہے
چنگ کا نغمہ اور رباب اور عود کیا ہے
دید حسنِ خویش با چشمِ شہود
خود تجلی کرد در ملکِ وجود
خدا نے اپنےحسن کی طرف موجود نہ ہونے کی نظر سے دیکھا
خود جلوہ کیا ہستی کے ملک میں
امر ربم روح کردہ نام ما
کردہ پُر ساقیِ وحدت جامِ ما
میرے رب کے حکم نے میرا نام روح کیا
ساقی وحدت نے میرا پیالہ پُر کیا
عشق بازی می کنم با او مدام
یافت آدم از طفیل عشق کام
میں ہمیشہ اس کے ساتھ عش بازی کرتی ہوں
آدم نے عشق کے طفیل سے مقصد پایا
تافت بر ہر ذرہ خورشیدِ کمال
گشت پیدا از جمال او جلال
کمال کا سورج ہر ذرے پر چمکا
اس کے جمال سے جلال ظاہر ہوا
آنکہ او از قہر حق گشتہ پلید
ہمچو شیطاں روئے بہبودی ندید
وہ کہ خدا کے غضب سے پلید ہوا
اس نے شیطان کی طرح بہتری کا چہرہ نہ دیکھا
ہر کہ او شد آفریدہ از جمال
باز یا بدراہ در بزمِ وصال
جو کہ جمال سے پیدا ہوا
وصال (قرب خدا) کی محفل میں راہ پاتا ہے
آنچہ در روزِ ازل رفتہ قلم
حک نگرد د بعد ازاں حرفِ رقم
وہ جو کہ پیدائش کے روز چل چکا قلم
اس کے بعد لکھا ہوا حرف نہ مٹے گا
زہد و تقویٰ چیست اے مردِ فقیر
لا طمع بودن ز سلطان و امیر
اے مرد فقیر زہد و تقویٰ کیا ہے
بادشاہ اور امیر سے بے طمع ہونا
بہر آب و ناں نہ گردی در بدر
آبروئے خود نہ ریزی بہرِ زر
پانی اور روٹی کے لئے در بدر نہ پھرے
اپنی آبرو زر کے لئے نہ گرائے
ترک سازی صحبتِ اہل دول
گوشہ گیری تا نیفتی در خلل
دولت مندوں کی صحبت کو ترک کرے
گوشہ اختیار کرے تاکہ خلل میں نہ پڑے
بر درِ سلطان مرو،رویش مبیں
گنج قاروں گردہد سویش مبیں
بادشاہ کے دروازے پر مت جا اس کا منہ مت دیکھ
خزانہ قارون کا اگر دیوے تو بھی اس کی طرف مت دیکھ
گر بفاقہ جاں بر آید از قفس
چوں مگس دستت مزن برنانِ کس
اگر فاقہ کے سبب سے جان پنجرۂ تن سے نکل جاوے
مکھی کی طرح اپنا ہاتھ کسی کی روٹی پر مت مار
تلخ بہِ جلاب شیریں را مچش
پیش دُو ناں بہرِ ناں خواری مکش
تلخی بہتر ہے میٹھا شربت گلاب ملامت چکھ
کمینوں کے آگے روٹی کےلئے ذلت مت کھینچ
برسرِ خوانِ قناعت دست زن
تانباشد دست برفرماں شکن
قناعت کے دستر خوان پر ہاتھ مار
تاکہ تجھے خدا کی نافرمانی کی قدرت نہ ہو
باش در کنجِ قناعت سرنگوں
پامنہ از گوشۂ عزلت بروں
قناعت کے گوشہ میں سر جھانک کر بیٹھ
تنہائی کے گوشے سے قدم باہر نہ رکھ
پشتِ پازن تخت کیکاؤس را
سر بدہ از کف مدہ ناموس را
کیکاؤس کے تخت کو ٹھوکر مار
سر دے دے لیکن ہاتھ سے آبرو کو نہ دے
گربدست آید ترا گنجِ نقود
ور نداری ہمت عالی چہ سود
اگر نقد کا خزانہ تیرے ہاتھ آجاوے
لیکن تو بلند حوصلہ نہ رکھتا ہو کیا فائدہ ہوگا
الحذر از حبِ دنیا الحذر
بہرِ نان و زر مخو رخونِ جگر
دنیا کی محبت سے پرہیز کر پرہیزکر
روٹی اور زر کے لئے جگر کا خون مت پی
ممسکان ہرگز نمی بینند بہی
زانکہ حبیب ہمتش دار ندتہی
بخیل ہر گز نہیں دیکھتے ہیں بہتری
اس لئے کہ اپنی ہمت کی تھیلی خالی رکھتے ہیں
آبرو ریزند بہر سیم و زر
ممسکاں را مثلِ گاؤ و خر شمر
اپنی آبرو ریزی کرتے ہیں واسطے چاندی اور سونے کے
بخیلوں کو بیل اور گدھے کے مانند شمار کر
مردکم ہمت حقیرست در نظر
خوارباشد گربود باصد ہنر
کم ہمت آدمی نظر میں حقیر ہے
اگر چہ سو ہزار رکھتا ہو خوار و ذلیل رہتا ہے
خلق گردد رام او بادلبری
سرفراز دبر سپہر چنبری
لوگ دلربائی کے سبب سے اس کے مطیع ہوتے ہیں
حلقہ وار آسمان پر سر بلند کرتا ہے
ہر کہ عالی ہمت ست و با سخا
عفو گرداند گنا ہا نش خدا
جو کہ عالی ہمت اور سخی ہوتا ہے
خدا اس کے گناہوں کو معاف کرتا ہے
زہد و تقویٰ چیست اے مردِ فقیر
لا طمع بودن ز سلطان و امیر
اے مرد فقیر زہد اور تقویٰ کیا ہے
بادشاہ اور امیر سے بے طمع ہونا
زہد و تقویٰ نیست ایں کز بہر خلق
صوفیٔ باشی و پوشی کہنہ دلق
یہ زہد و تقویٰ نہیں ہے کہ لوگوں کے لئے
تو صوفی بنے اور پرانے گدڑی پہنے
شانۂ و مسواک و تسبیح ریا
جبۂ و دستارو قلب بے صفا
کنگھا اور مسواک اور مکر کی تسبیح
جبہ اور عمامہ اور دل صفائی سے خالی
پیش و پس گردد مرید نا خلف
چوں خرِابلہ پے آب و علف
نالائق مرید آگے اور پیچھے پھرتا ہے
پانی اور چارے کے لئے احمق گدھے کی طرح
چوں بہ بینی چند کس بیہودہ گرد
خویش را گوئی منم مردانہ مرد
جب کہ تو چند لوگوں کو بیہودہ پھرنے والا دیکھتا ہے
اپنبے آپ کو کہتا ہے کہ میں بہادر مرد ہوں
دام اندازی برائے مرد و زن
خویش را گوئی منم شیخ زمن
تو جال لگاتا ہے مرد اور عورت کےلئے
اپنے آپ کو کہتا ہے میں زمانے کا شیخ ہوں
وعظ گوئی خود نیاری در عمل
چشم پوشی ہمچو شیطانِ دغل
وعظ کہتا ہے خود عمل میں نہیں لاتا
مکار شیطان کی طرح چشم پوشی کرتا ہے( وعظ و نصیحت سے)
مکر و تلبیس و ریا کارت بود
ہر نفس شیطاں ترا یارت بود
مکر اور فریب اور دکھاوا تیرا کام ہے
ہر دم شیطان تیرا یار ہے
چوں شوی استادہ از بہرِ نماز
دل بود در گاو و خراے حیلہ ساز
جب تو نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے
دل گائے اور گدھے میں ہوتاہے اے حیلہ کرنے والے
آں نمازِ تو شود آخر تباہ
فکرِ باطل ہا کند رویت سیاہ
جب کہ تیرے ایمان میں آخر قصور پڑتا ہے
بھلا اے بے شعور تو ایسی نماز کیوں پڑھتا ہے
چوں در ایمانت فتد آخرِ قصور
ہاں چرا خوانی نماز اے بے شعور
جب کہ تو جا نماز پر قبلے کی طرف من کر کے بیٹھا ہے
آنکھ تو بند کرتا ہے دل دوسری جگہ گروی ہوتا ہے
بر مصلیٰ چوں نشینی قبلہ رو
چشم پوشی دل بود جائے گرو
خادم کہتے ہیں کہ یہ شیخ زمانے کا
لوگوں اور جہان سے آنکھیں بند کئے ہے
خادماں گویند ایں شیخ زماں
چشم پوشیدست از خلق و جہاں
شیخ کی منزل لاہوت ہے
فنا ہوا ہے ذات بقا ا س کو حاصل ہوئی ہے
شیخ را لاہوت باشد منزلش
شد فنا ذاتِ بقا شد حاصلش
یہ چند احمق تعریف کرنے والے
راہ مار ہیں راہ ہیں راہ مار ہیں
ایں خوشامد گوئی چندیں ابلہاں
رہز نانند رہزنانند رہزناں
تعریف سے اپنے آپ کو گمراہ نہ کر
اپنا عیب دیکھ لوگوں کا عیب مت کر
ازستایش خویشتن را گم مکن
عیب خود بیں عیب بر مردم مکن
اے کہ تو گرفتار ہے نفس امارہ کی قید میں
اے نفس کافر کو قتل کر توڑ پنجرا
اے گرفتار آمدی در بند نفس
نفس کافر را بکش بشکن قفس
تاکہ تو اپنی اصل کی طرف پرواز کرے
اپنے وصل کے آشیانے میں جگہ کرے
تاکنی پرواز سوئے اصل خویش
جاکنی در آشیانِ وصلِ خویش
کب تک تو اپنے مکان سے جدا رہے گا
کب تک دربدرا ے بے شرم مارا پھرے گا
چند باشی از مکانِ خود جدا
چند گردی در بدراے بے حیا
تو خود ہی انصاف کر اے فریبی
کہ دل بھرا ہوا ہےمکرسےاور قرآن ہے بغل میں
خود بدہ انصاف اے اہلِ دغل
دل پرست از مکر و مصحف در بغل
تیرے ساتھ ہمراز ہے شیطان ہر گھڑی
تو کب ہوگا خد اکی رہ میں ثابت قدم
باتو ہمراز ست شیطاں دمبدم
کے شوی در راہِ حق ثابت قدم
دنیا کی محبت تیرے لئے جنیو کا ڈورا ہے
راہ خدا سے تمہیں روکنے والا تیری داڑھی اور پگڑی ہے
حب دنیا رشتہ زنار تست
سدرہ ریش ذقن دستار تست
دل کبھی حرص و لالچ سے پاک نہیں ہوا
تونے کبھی دل کو موجود کرکے نماز نہ پڑھی
دل نشد ہر گز خلاص از حرص و آز
گہ نکردی از حضور دل نماز
تو نے کبھی سچے دل سے سجدہ نہ کیا
تاکہ رحمت کے دروازے تجھ پر کشادہ ہوں
از تضرع سرنسودی بر زمیں
کوری و بینا نشد چشمِ یقیں
عاجزی سے کبھی تو نے سر نہ گھسا زمین پر
تو اندھا ہے اور یقین کی آنکھ دیکھنے والی نہ ہوئی
می کنی طاعت تو از بہرِ ریا
گہ نکردی سجدہ از بہر خدا
تو عبادت کرتا ہے دکھاوے کے لئے
تو نے کبھی خدا لئے سجدہ نہیں کیا
تا بداند خلق مرد اولیا ست
متقی پرہیزگار و پارسا ست
تاکہ لوگ جانیں ولی مرد ہے
متقی اور پرہیزگار اور پارسا ہے
صوفیم گوئی نداری سینہ صاف
از کرامتہائے خود شیخا ملاف
تو دعویٰ کرتا ہے کہ میں صوفی ہوں اور سینہ صاف نہیں رکھتا ہے
اپنی کرامتوں کی اے شیخ ڈینگ مت مار
نفسِ کافر کیش داری در کمیں
بہرِ شہرت می نشینی اے لعیں
نفس کافر طریق تیری گھات میں لگا ہے
پس تو اے ملعون شہرت کے لئے بیٹھتا ہے
می کشائی دست از بہرِ دعا
مزد خواہی از عبادات ریا
تو دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتا ہے
دکھاوے کی عبادت کی مزدوری چاہتا ہے
می کنی از مکر عالم را مطیع
می دہی تسکیں منم فردا شفیع
تو مکر سے دنیا کے لوگوں کو اپنا تابع کرتا ہے
یہ کہہ کر کہ کل قیامت میں تمہارا شفیع ہوں گا ان کو تسلی دیتا ہے
شیخ می گوئی و تسبیہحے بدست
صدبتے داری نہاں ا ی بت پرست
اپنے آپ کو شیخ بتاتا ہے اور تسبیح ہاتھ میں لئے ہے
اور اے بت پرست سو بت پوشیدہ تو رکھتا ہے
یک دلے داری درانں صد آرزوست
چاک دل از دستِ تو صد جا رفوست
ایک دل رکھتا ہے اور ان میں سو آرزوئیں ہیں
دل کا چاک سو جگہ تیرے ہاتھ سے رفو کیا ہوا ہے
اے رخت از بغض و کبر آراستہ
از نفاق و از حسد پیراستہ
اے تیرا رخ دشمنی اور غرور سے آراستہ ہے
دوروئی اور حسد سے سنوارا ہے
اے بجہل آراستہ زشت و پلید
خویش را گوئی منم چوں بایزید
اے نادانی سے بھرے ہوئے برے اور ناپاک
تو اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں بایزید کے مانند ہوں
از تکبر می کنی ہر سو نظر
خویش را گوئی کہ ہستم باخبر
تو گھمنڈ سے ہر طرف نظر کرتا ہے
اور اس پر اپنے آپ کو کہتا ہے کہ میں باخبر ہوں
بت پرستی می کنی ہم بت گری
شد دلت رشک بتانِ آزری
تو بت کو پوجتا بھی ہے اور بت کو بناتا بھی ہے
تیرا دل آزر کے بتوں کو شرمانے والا ہے
بت شکن برہم بزن بت خانہ را
چوں خلیل اللہ بنا کن خانہ را
تو بت کو توڑ دال اور بت خانے کو ڈھا دے
حضرت ابراہیم کی طرح کعبہ تیار کر
چند مغرور ی تو بر اصل و نسب
از تکبر دور باش اے بے ادب
تو کب تک اصل اور نسب پر گھمنڈ کرتا رہے گا
ارے گستاخ غرور سے دور ہو
پیر گشتی صد ہوس داری بدل
جاہلی چوں خر فرد مانی بگل
تو بوڑھا ہوگیا ہے اور سو آرزوئیں دل میں رکھتا ہے
تو نادان ہے گدہے کی طرح مٹی اور کیچڑ میں دھنسا ہے
آرزو ہائے تو ہر گز کم نشد
قامت حرص و ہوایت خم نشد
ہرگز تیری آرزوئیں کم نہیں ہوتیں
تیرے حرص و ہوا کا قد جھکتا نہیں
دل چو آلودست از حرص و ہوا
کے شود مکشوف اسرارِ خدا
جب کہ دل حرص و ہوا سے آلودہ ہے
خدا کے بھید ہر گز تم پر نہیں کھلیں گے
صد تمنا در دلست اے بو الفضول
کے کند نور خدا در دل نزول
اے بیہودہ بکو اسی سو آرزوئیں تیرے دل میں ہیں
خدا کا نور تیرے دل میں ہرگز نزول نہیں کرے گا
دین و دنیا ہر دو کے آید بدست
ایں فضولیہا مکن اے خود پرست
دین اور دنیا دونوں کب ہاتھ آسکتی ہیں
اے خود پرست یہ زیادتیاں مت کر
بر تو قسمت میر سدا ے بے خبر
پس چرا قانع نہ ای برخشک و تر
تجھے ترا حصہ ملتا ہے اے بے خبر
پھر تو قناعت کیوں نہیں کرتاہے خشک و تر پر
حرص ِتودلقِ قناعت پارہ کرد
نفس امارہ ترا آوارہ کرد
تیری حرص نے قناعت کی گدڑی چاک کر ڈالی
نفس امارہ نے تجھے آوارہ کر دیا
ہست دنیا پیرزال و پر فریب
می کند پیر و جواں رانا شکیب
دنیا بوڑھی عورت ہےاور فریب سے بھری ہے
بوڑھے اور جوان کے بے صبر نباتی ہے
عارفان دادند او را صد طلاق
ہر کہ عاشق شد بر او گشت عاق
ا
ایں سخن در گوش داری اے جواں
مولوی گفتہ زروئے امتحاں
خدا شناسوں نے اس کو سو طلاقیں دیں
جو اس پر عاشق ہوا خدا کا نا فرمان ہوا
ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں
ایں خیالست و محالست و جنوں
یہ بات اے جوان کان میں رکھ
کہ حضرت مولانائے روم نے تجربے کی بات کی ہے
بہرِ دیں دل کند از دنیا علی
آں علی شد والی ملکِ نبی
تو خدا کوبھی چاہتا ہے اور کمینی دنیا کو بھی
یہ صرف خیال ہے اور محال ہے اور دیوانگی ہے
آں وصی مصطفیٰ شیرِ خدا
آں علی، زوجِ بتول پارسا
دین کے واسطے حضرت علی دنیا سے بیزار ہوئے
وہ علی کہ حضرت نبی کے ملک کے حاکم ہوئے
زال دنیا را چناں زدپشت پا
تا نیاید در نکاحِ اولیا
وہ حضرت محمد مصطفے کے وصی اور خدا کے شیر
وہ حضرت علی پرہیزگار بی بی حضرت فاطمہ کے خاوند
بہر دنیا آں یزید نا خلف
دین خود کردہ براے او تلف
بوڑھی دنیا کو اس لئے ٹھوکر ماری
تاکہ ولیوں کے نکاح میں نہ آوے
زال دنیا چوں در آمد در نکاح
کرد بر خود خونِ آں سید مباح
اس نالائق یزید نے دنیا کے لئے
اپنے دین کو اس کے لئے برباد کیا
داد یاری ہمچو کس را پیر زال
کرد اورا در دو عالم پائمال
بوڑھی دنیا اس کے نکاح میں آئی
اس نے اس سیدکے خون کو اپنے اوپر رواکیا
چوں خوری پس خوردۂ خوان یزید
تلخ گرداں کام از نانِ یزید
بوڑھی دنیا نے جب ایسے شخص کی مدد دی
دونوں جہان میں اس کو پائمال کیا
گر بر افتد پردہ از روئے مجاز
نفرتے گیری ز زالِ حیلہ ساز
تو یزید کے خوان کا بچا ہوا کیوں کھاتا ہے
اپنے تالو کو یزید کی روٹی سے تلخ کر
زشت روئے او چو آید در نظر
از خدا خواہی اماں اے بے خبر
اگر دنیا کے چہرے سے پردہ الٹ جاوے
تو اس حیلہ کرنے والی بڑھیا سے نفرت کرے
آتشے از دور چوں گلشن بود
در حقیقت سر بسر گلخن بود
جب کہ اس کا بد صورت چہرہ نظر آوے
اے بے خبر تو خدا سے پناہ چاہے
نخوت آرد مر ترا مال و منال
گر نداری از تہی دستی منال
وہ آگ دور سے باغ ایسی نظر آتی ہے
اور سچ مچ بالکل بھاڑ ہوتی ہے
نیست رحمے در دلِ اہل دول
شیوۂ اہل دول باشد دغل
مال اور جائداد تجھ کو مغرور بناتے ہیں
اگر تیرے پاس کچھ نہ ہو تو مفلسی کی شکایت مت کر
اہلِ دنیا بہر سیم و مال و زر
گر بدست آید خورند خونِ جگر
دولت مندوں کے دلوں میں رحم نہیں ہے
دولت مندوں کا طریقہ مکر و فریب ہے
آں شنیدی کز برائے عزہ و جاہ
بے گنہ کردند یوسف را بچاہ
دنیادار چاندی اور مال اور سونے کے لئے
اگر ہاتھ آوے تو جگر کا خون پیتے ہیں
از حسد بےرحمیِ اخواں ببیں
حالِ زار یوسفِ کنعاں ببیں
تو نے وہ سنا ہے کہ عزت اور مرتبے کے لئے
حضرت یوسف کو بیخطا کنویں میں ڈالا
برسرت باشد ترا گر تاجِ زر
کس نیاید از تکبر در نظر
حسد کے سبب سے بھائیوں کی بے رحمی دیکھ
حضرت یوسف کنعانی کی خراب حالت پر نظر کر
بلکہ روتابی چوں نمرود از خدا
گم کنی خود را نترسی از جزا
اگر تیرے سر پر سونے کا تاج ہوگا
تو تکبر کے سبب سے کوئی تیری نظر میں نہ آوے گا
حرص افزوں می شود از مال و زر
قطع گرد د حبِ فرزند و پدر
بلکہ تو نمرود کی طرح سے خدا سے منہ پھیرے گا
اپنے آپ کو گم کرے گا اور روز جزا سے نہ ڈرے گا
پادشاہاں را ببیں کز بہرِ مال
خونِ اخوان و پدرر دانند حلال
حرص مال و زر سے بڑھتی ہے
بیٹھے اور باپ کی محبت دولت کی محبت میں کٹ جاتی ہے
پیچ جادیدی گدائے بینوا
روبگرداند چو فرعون از خدا
بادشاہوں کو دیکھ کہ مال کے لئے
بھائیوں اور پاب کا خون حلال جانتے ہیں
دولت آر دکبر را بےدیں کند
نفسِ کافر کفر را تلقیں کند
تو نے کسی جگہ ایک بے سرو سامان فقیر کو دیکھا ہے
کہ اس نے فرعون کی طرح خدا سے روگردانی کی ہے
دوستانِ حق کہ بیزارند ازو
چیست حکمت ہیچ می دانی درو
دولت غرور پیدا کرتی ہے بے دین بناتی ہے
نفس کافر کو کفر کا سبق پڑھاتا ہے
حبِ دنیا چوں کند بر دل نگاہ
دل چو خارا گرددش سخت و سیاہ
خدا کے دوست کہ اس سےبیزار ہیں
تو جانتا ہے کہ اس میں کیا راز کی بات ہے
کور گردد روشن چشمِ یقیں
بستہ گردد بعد ازاں در ہائے دیں
دنیا کی محبت جب کہ دل پر نظر کرتی ہے
دل سخت پتھر کی طرح سخت اور سیاہ ہوجاتا ہے
بہرِ طاعت لقمۂ باید حلال
تا نیفزاید ترا رنج و ملال
یقین کی روشنی سے آنکھ اندھی ہوجاتی ہے
اس کے بعد دین کے دروازے بند ہوجاتے ہیں
لقمۂ شبہہ چو افتد در شکم
قوت او می کند سر رشتہ کم
عبادت کے لئے حلال لقمہ درکار ہے
تاکہ تجھے رنج و ملال نہ بڑھادے
چوں بخواہی لقمۂ ناداں ز آز
نفس گرداند دہانِ حرص باز
شبہے کا نوالہ جب پیٹ میں پڑتا ہے
اس کی قوت اصل مدعا کو کم کر دیتی ہے
بر تو یابد دست گر ایں حیلہ ساز
دست بہرِ ظلم گرداند در از
جب کہ تو اے نادان حرص کا نوالہ چاہتا ہے
تونفس امارہ حرص کا منہ کھولتا ہے
چشم شہوت چوں کشاید آں لعیں
کور گردد دیدۂ اہلِ یقیں
اگر یہ حیلہ گرتجھ پر قدرت پاتا ہے
تو ظلم کے لئے ہاتھ دراز کرتا ہے
چوں تکبر مر ترا رسوا کند
شہوتِ حرص و ہوا پیدا کند
جب کہ وہ ملعون نفس شہوت کی آنکھ کھولتا ہے
یقین والوں کی آنکھ اندھی ہوجاتی ہے
پس نیاید کارِ تو علم و عمل
از دغل افتد در ایمانت خلل
غرور کی طرح تجھ کو بدنام کرے گا
حرص و ہوا کی خواہش پیدا کرے گا
نفسِ کافر تابود ہمراہِ تو
آتشِ دوزخ بود جاں کاہِ تو
پس علم و عمل تیرے کام نہ آئے گا
اور مکرسے تیرے ایمان میں خلل پڑے گا
گر تو مردی نفس کافر را بکش
ورنداری دسترس بنشیں خمش
یہ نا فرمان نفس جب تک کہ تیرے ساتھ رہے گا
دوزخ کی آگ تیری جان کی گھٹانے والی ہوگی
گر نداری ہمتِ مردان ِدیں
چوں زناں رو در پس پردہ نشیں
اگر تو مرد ہے تو نفس کافر کو مار ڈال
اور اگر یہ قدرت نہیں رکھتا ہے تو خاموش بیٹھ
گر زدستِ تو نیاید کارِ مرد
ہمچو ہیزاں در پس مردان مگرد
اگر تو دیندار لوگوں کی سی ہمت نہیں رکھتا ہے
جا عورتوں کی طرح پردے کے پیچھے بیٹھ
اے مخنث نے تو مردی نے توزن
مثلِ شیطاں راہ مرداں را مزن
اگر تیرے ہاتھ سے مرد کا کام نہ ہوسکے
ہجڑوں کی طرح مردوں کے پیچھے مت پھر
مرد باید تا نہد بر نفسِ پا
بگذرد از شہوتِ حرص و ہوا
اے مخنث نہ تو مرد ہے نہ عورت
شیطان کی طرح مردوں کی راہ مت مار
دستِ ہمت را برا فراز د بلند
نفس را چوں صید آرد در کمند
مرد کو چاہئے کہ نفس پر قدم رکھے
شہوت اور حرص اور ہوا کو ترک کرے
دست راکوتا ہ سازد از ہوس
بشکند با جنگِ ہمت ایں قفس
ہمت کا ہاتھ اونچا بلند کرے
نفس کو شکار کی طرح کمند میں لا دے
گر خوری یک لقمہ از وجہِ حلال
نور تابد بردل از مہرِ کمال
ہاتھ کو ہوس سے کوتاہ کرے
ہمت کے پنجے سے اس نفس امارہ کے پنجرے کو توڑ دے
گرشوی از لقمۂ شبہہ نفیر
نفس را سازی بفضلِ حق اسیر
اگر تو ایک لقمہ حلال کمائی کا کھائے گا
کمال کے آفتاب سے دل پر نور چمکے گا
دل شود روشن ز نور آئینہ وار
پر تو اندازد در آئینہ نگار
اگر تو شبہے کے لقمے سے نفرت کرنے والا ہوگا
نفس امارہ کو خدا کے فضل سے قیدی بنائے گا
چوں کشائی چشم اے اہل یقیں
ہر طرف تاباں جمالِ یار بیں
دل نور سے آئینہ کی طرح روشن ہوگا
محبوب کا عکس دل کے آئینے میں نظر آئے گا
یار را می بیں تو در ہر آئینہ
سوز و ساز اوست در ہر طنطنہ
جب اے صاحب یقین تو آنکھ کھولے
ہر طرف یار کا روشن جمال دیکھ
ہر چہ آید در نظر از خیر و شر
جملہ ذاتِ حق بود اے بے خبر
تو ہر آئینے میں یار کو دیکھتا رہ
اس کا ہی سوز و ساز ہے ہر آواز میں
اوست در ارض و سماو لامکاں
اوست در ہر ذرہ پیدا و نہاں
جو کچھ کہ نیکی اور بدی سے نظر میں آوے
اے بے خبر سب کچھ وہ ذات حق ہے
پاس دار انفاس اے اہلِ خرد
تا ترا ایں قافلہ منزل بَرد
وہی ہے زمین اور آسمان اور لامکان میں
وہی ہے ہر ذرے میں ظاہر اور پوشیدہ
اوست پیدا او نہاں و آشکار
جلوہ ہا کر دست در ہر شے نگار
اے عاقل اپنے نفسوں کی نگہبانی کر
تاکہ تجھ کو یہ قافلہ منزل پر لے جاوے
ہوش در دم داراے مردِ خدا
یک نفس یک دم مباش از حق جدا
وہی ہے ظاہر اور پوشیدہ اور کھلم کھلا
محبوب نے ہر چیز میں جلوے کئے ہیں
نفی گرداں از دل خود ما سوا
تا نہ گنجد در دلت غیر از خدا
اے مرد خدا ہر دم ہوشیار رہ
ایک دم بھی خدا سے جدا مت ہو
رنگِ دل از صیقل لا پاک کن
سینہ با تیغِ محبت چاک کن
ماسوا کی اپنے دل سے نفی کر
تاکہ تیرے دل میں خدا کے سوا نہ سماوے
اسم ذات او چو بردل نقش بست
سکۂ ضرب محبت خوش نشست
دل کے مورچے کو لاکی صیقل سے پاک کر
سینے کو محبت کی تلوار سے چاک کر
گشت چوں بر نقشِ دل نقش الہ
غیر نقش اللہ را اے دل مخواہ
جب کہ اس کی ذات کے نام نے دل پر نقش باندھا
محبت کی ٹکسال کا سکہ خوبی کے ساتھ بیٹھا
چوں شوی فانی تو از ذکرِ خدا
راہ یابی در حریم کبریا
جب کہ دل کے نقش پر خدا کا نقش ہوا
اے دل خدا کے نقش کے سوا کسی کا نقش مت چاہ
چوں بمانی با خدا یابی وصال
خویش را گم ساز اے صاحب کمال
جب کہ تو خدا کی یاد سے فانی ہووے گا
خدا کی بارگاہ میں راہ پائے گا
ہر کہ شد در بحرِ عرفاں آشنا
ذرہ ذرہ قطرہ داند از خدا
جب تو خدا کے ساتھ رہے گا اس کا قرب پائے گا
پس اپنے آپ کو اے صاحب کمال گم کر
آب دریا چوں زند موجِ دگر
در حقیقت آب باشد جلوہ گر
جو کہ خدا شناسی کے سمندر میں تیرنے والا ہوا
ذرہ ذرہ قطرے کو خدا کے جانتا ہے
نفس آب و چوں حبا بست جسم تو
آب چوں گردی نماند جسم تو
دریا کا پانی جب کہ دوسری موج مارتا ہے
حقیقت میں وہی پانی جلوہ گر ہوتا ہے
چوں الف در لام می گردد نہاں
خویش را گم ساز تا گردد عیاں
نفس پانی ہے اور جسم تیرا مانند بلبلے کے ہے
جب کہ توپانی ہوجائے گا تو تیرا یہ جسم باقی نہ رہے گا
گشت واصل چوں بدریا آب جو
آب جو را باز از دریا مجو
جس طرح الف لام میں ہوجاتا ہے پوشیدہ
تو اپنے آپ کو گم کرتا کہ ذات حقیقت ظاہر ہووے
تا توئی کے یار گردد یارِ تو
چوں نباشی یار باشد یارِ تو
جب کہ نہر کا پانی دریا میں پہونچا
پھر نہر کے پانی کو دریا میں مت ڈھونڈھ
مولوی فرمود در نظم ایں بیاں
برتو گردد روشن اسرارِ نہاں
جب تک کہ تو ہے کب یار تیرا یار ہووے گا
جب تو نہ رہے گا یار تیرا یار ہوجاوے گا
تو مباش اصلا کمال اینست و بس
تو در و گم شو وصال اینست و بس
مولانائے روم نے فرمایا نظم میں یہ بیان
یہ پوشیدہ بھید تجھ پر روشن ہووے
بشنو از من گر تو ہستی ہوشیار
باتو گویم ایں سخن را گوش دار
تو ہرگز مت رہ کمال کا درجہ یہی ہے اور بس
تو اس میں گم ہوجا وصال کا درجہ یہی ہے اور بس
ہر کہ ایں پندا زمنِ عاشق شنید
بے شک اندر محفلِ جاناں رسید
سن مجھ سے اگر تو ہوشیار ہے
میں تجھ سے یہ بات کہتا ہوں تو کان لگا
ہر کہ او از خویشتن بیزار گشت
بے شک آنکس محرمِ اسررا گشت
جس نے مجھ عاشق کی یہ نصیحت سنی
بے شک محبوب کی محفل میں پہونچا
ہر کہ او سر باخت اندر کوئے او
بنگر د صد بار جاناں سوئے او
جو کہ اپنے سے بیزار ہوا
بے شک وہ بھیدوں کا راز دار ہوا
یک نگاہے گر کند سویم نگار
جاں چہ باشد گر بود صد جاں نثار
جس نے کہ اس کے کوچے میں اپنا سر دیا
دیکھتا ہے سو بار محبوب اس کی طرف
عاشقِ دیوانۂ و سر گشتہ ایم
یار جویاں گردِ ہر، در گشتہ ایم
ایک نگاہ اگر میری طرف محبوب کردے
اس ایک جان کی کیا حقیقت اگر سو جانیں ہوں تو نچھاور کردوں
ہر گہہ بوئے بشنوم از بوئے او
مست رفتم بے خبر در کوے او
ہم عاشق دیوانے اور سر گشتہ ہیں
یار کو ڈھونڈتے دربدر پھرتے ہیں
سنبل از گیسوئے او شد تابدار
لالہ از رخسار او شد داغدار
جب کہ اس کی خوشبو سے ایک مہک سونگھوں گا
بے خبر متوالا اس کے کوچے میں جاؤں گا
صد زباں در وصف او سوسن کشید
غنچہ باصد شوق پیراہن در ید
سنبل اس کی زلف سے پیچدار بنا
لالہ اس کے رخسار سے داغدار ہوا
نرگس بیمار چشم از سر کشاد
جام زریں بر کف زریں نہاد
سوسن اس کے وصف میں سو زبان نکالے ہے
غنچہ سو شوق کے ساتھ اپنا پیراہن پھاڑے ہے
نخل سر و از قامت زیبائے او
سبز و خرم گشت سرتا پائے او
نرگس بیمار نے باطن کی آنکھ کھول کر
سونے کا پیالہ چاندی کی ہتھیلی پر کھا
بلبل و قمری بہ بستاں نوحہ گر
ہریکے بانطق و اقرار دگر
سرو کا درخت اس کی زیبا قد سے
سر سے لے کر پاؤں تک سر سبز و شاداب ہوا
ہر طرف بر خاست ازوے ہائے و ہوئے
برزباں دارند ازوے گفتگوئے
بلبل اور قمری باغ میں نوحہ گر ہیں
ہر ایک دوسری بولی بولتا اور دوسرے اقرار کو ظاہر کرتا ہے
ایں شنیدم نغمۂ چنگ و رباب
سینہ بریاں شد زسوز دل کباب
اس سے ہر طرف شور و غوغا مچا ہے
زبان پر اسی کا ذکر جاری ہے
مطرب از شوقِ طرب چوں ساز کرد
ایں ترانہ را بسوز آغاز کرد
میں نے یہ چنگ اور رباب کا نغمہ سنا
دل کے سوز سے سینہ بھن کر کباب ہوگیا
یار را می بیں تو در ہر آئینہ
سوز و ساز اوست در ہر طنطنہ
مطرب نے گانے کے شوق سے جب باجا بجایا
اس نغمہ کو سوز دل کے ساتھ گانا شروع کیا
ہر چہ بینی در حقیقت جملہ اوست
شمع و گل پروانہ بلبل ہم ازوست
تو ہر آئینہ میں یار کو دیکھتا ہے
اس کے ساز کا سوز ہر آواز میں ہے
ہرچہ آید در نظر از جز و کل
بوم صحرا بلبل بستاں و گل
جو کچھ کہ دیکھے حقیقت میں سب وہی ہے
شمع اور گل اور پروانہ اور بلبل سب اسی سے ہے
عارفاں را نقش چہ زیبا چہ زشت
صورت ہر نیک و بدرا خود نوشت
جو کچھ چھوٹی اور بڑی چیز نظر آتی ہے
جنگل کا الو باغ اور گل کی بلبل
مرغ و ماہی مار و مور شیر ببر
چشمۂ حیواں و باراں برق وا بر
خدا شناسوں کے لئے خوشنما کیا بد نما نفس
ہر نیک و بد کی صورت خود اسی کی لکھی ہے
سنگ خارا لعل و یاقوت و گہر
ظلمت شب تیرہ نور ِماہ و خور
مرغ اور مچھلی سانپ اور چیونٹی اور شیر ببر
چشمۂ حیات اورمینہ اوربجلی اور بادل
ہر چہ باشد آب و آتش باد و خاک
جملہ را مخلوق کرد از صنع پاک
سخت پتھر اور لعل اور یاقوت اور موتی
تاریک رات کی تاریکی چاند اور سورج کی روشنی
قادرے کو آفریدہ قطرہ آب
نقش بستہ در صدف در ِّخوش آب
جو کچھ ہے پانی اور آگ اور ہوا اور خاک
اس نے سب کو اپنی قدرت پاک سے پیدا کیا
گوہرِ جاں مطلع انوار اوست
معدن جاں مخزن اسرراوست
ایسا قدرت والا کہ اس نے پانی کی بوند سے
آبدار موتی سیپی میں نقش باندھا
یار در تو، پس چرائی بے خبر
یار در خود تو چہ گردی در بدر
جان کا گوہر اس کی روشنیوں کی نکلنے کی جگہ ہے
جان کی کان اس کے بھیدوں کا خزانہ ہے
اے گرفتاری بہ بند نام و ننگ
شیشۂ ناموس را بشکن بسنگ
یار تجھ میں ہے پس تو کیوں بے خبر ہے
یار خود تجھ میں ہے تو کس لئے دربدر پھرتا ہے
اوست پیدا در تو، تو از خویش گم
مرگ آید ناگہاں گوید کہ قم
اے نام و نمود کی قید میں گرفتار
ناموس کے شیشے کو پتھر پر توڑ
ناگہاں بر خیزی افتی در مغاک
روز محشر منفعل خیزی زخاک
وہ تجھ میں ظاہر ہے اور تو اپنے سے بے خبر ہے
اچانک موت آکر کہنے والی ہے کہ اُٹھ
ناگہہ از گورت بر آید ایں صدا
حسرتا وا حسرتا وا حسرتا
یکبار گی تو اٹھ کر غار میں پڑے گا
قیامت کے روز شرمندہ قبر سے اٹھے گا
حیف باشد ہمچو نا بینا روی
کور و کر برخیزی و رسوا شوی
یکبارگی تیری قبر سے نکلے گی یہ آواز
آہ حسرت ہے حسرت ہے بڑی حسرت
اے خلیفہ زادۂ بس نابکار
تابکے بیگانہ گردی ہوش دار
افسوس ہے کہ تو اندھے کی طرح جاوے
اندھا اور بہرا اٹھے اور بدنام ہووے
رحم کن بر حال خود اے بوالہوس
باز گردد توبہ کن در ہر نفس
اے حضرت آدم کے بیٹے بس کر نالائق کام سے
کب تک تو بیگانہ رہے گا ہوش میں آ
باخدا ہر دم ہمی گوئی دروغ
از دروغِ تو چہ افزا ید فروغ
اے بوالہوس اپنی حالت پر رحم کر
خدا کی طرف رجوع کر اور ہر دم توبہ کر
ہر زماںگوئی کہ من توبہ کنم
بیخ اغیار از دلِ خود بر کنم
تو خداسے ہردم جھوٹ بولتا ہے
جھوٹ سے تیرا کیا فروغ ہوگا
چوں شود فرد ا،ز سر گیرم کار
دل زخارِ عشق او سازم فگار
ہر دم کہتا ہے کہ میں توبہ کرتا ہوں
غیروں کی جڑ دل سے اکھاڑتا ہوں
روئے دل شویم ز آب توبہ باز
با وضوئے خونِ دل سازم نماز
جب کل ہوگی تو کام نئے سر سے شروع کریں گے
اس کے عشق کے کانٹے سے دل کو زخمی کریں گے
گوشِ نفشِ خویش را مالش دہم
از ہوا و ہستی خود وارہم
دل کے چہرے کو توبہ کے پانی سے دھوؤں گا
پھر دل کے خون سے وضو کرکے نماز ادا کروں گا
عہد و پیماں بشکنی چوں شب شود
دل پئے جویائے ایں مطلب شود
اپنے نفس امارہ کو گو شمالی دوں گا
ہوا اور خودی سے آزاد ہوں گا
بگذرم از ہرچہ باشد کم و بیش
دل بشواز مکرباطلہائے خویش
جب رات آتی ہےتو یہ سب عہد و پیمان توڑ ڈالتا ہے
دل اس مطلب کے ڈھونڈھنے کے در پے ہوتا ہے
ساقی مہ رو شراب لعل ناب
مطرب و دلبر و آہنگِ رباب
اب جو کچھ کہ کم اور زیادہ ہے اس سے در گذر کروں
خلاصہ یہ ہے کہ تو اپنے بیہودہ مکروں سے دل کو دھو
شاہد خورشید روئے تند خوئے
دلبرِ غارت گر گردیں عشوہ جوئے
چاند صورت ساقی اور خالص سرخ شراب
اور گویا اوررباب کی الاپ یہ سب دل لے جانے والے ہیں
گر بدست آید در آغوشش کشی
شربت ہر تلخ و شیریں را چشتی
معشوق خورشید صورت تیز خو
دل کا لے جانے والا ہے دین کا غارت کرنے والا ہے حیلہ باز ہے
گرشود موجود اسبابِ طرب
صرفِ بیباکی کنی اوقاتِ شب
اگر تیرے ہاتھ آ جائے تو اس کو اپنی آغوش میں لیتا ہے
ہر کڑوے اور میٹھے شربت کو تو چکھتا ہے
ورنہ باشد ایں میسر اے گدا
تا سحر باشی دریں غم مبتلا
اگرخوشی کا سامان موجود ہووے
تو رات کے وقتوں کو بے پرواہی سے خرچ کردیوے
گر نیابی دست خونِ دل خوری
عصمتِ بی بی بودبے چادری
اور اے فقیر اگر تجھ کو یہ چیزیں نہ حاصل ہوں
تو تُو صبح تک اس غم میں مبتلا رہے
چوں نداری شرم اے پیماں شکن
باز می خواہی مرادِ خویشتن
اگر ہاتھ نہ آئے تو دل کا خون کھائے
سچ کہا ہے کی بی بی کی پاکدامنی چادر نہ ہونے کی وجہ سے ہے
عمر با خامی طبع سرمی زنی
بلکہ از ابلیسِ ملعوں کمتری
اے عہد کے توڑنے والے کیوں تجھے شرم نہیں آتی
پھر چاہتا ہے اپنی مراد
نفسِ بد کردار تو چوں سگ پلید
دست ایمانت بدنداں پس گزید
تو عمر بھر اپنی خام طبعی سے سرمارتا پھرتا ہے
بلکہ سچ پوچھئے تو ملعون ابلیس سے کمتر ہے
شہوت و خواب و خورش داری مدام
از عبادت کاہلی و نا تمام
بدکار نفس نے ناپاک کتے کی طرح
تیرے ایمان کے ہاتھ کو دانتوں سے کاٹا
جہل خروارے تو اے بیہودہ گرد
انچہ تو کردی گہے شیطاں نکرد
شہوت اور خواب و خورش تو رکھتا ہے ہمیشہ
عبادت سے کاہل ہے اور ناتمام
یافت تعلیم از تو شیطان مکر و ریو
از تو آموز ند بازی طفل و دیو
تو اے بیہودہ پھرنے والے گدھے کی طرح نادان ہے
جو کچھ کہ تو نے کیا ہے کبھی شیطان نے بھی نہیں کیا
مکر و تلبیس از تو شیطاں می خورد
ہر زماں صد بستہ بستہ می برد
شیطان نے تجھ سے مکر اور فریب کی تعلیم پائی
لڑکے اور دیو تجھ سے بازی سیکھنے والے ہوئے
نفس کافر تا بود ہمراہ تو
آتشِ دوزخ بود جاں کاہِ تو
مکر و فریب تجھ سے شیطان کھاتا ہے
ہر دم مکر و فریب کے سو بستے باندھ کر لے جاتا ہے
جیفۂ مردار داری سرنوشت
سگ صفت زاں داری اے آدم سرشت
نافرمان نفس جب تک تیرا ہمراہی رہے گا
دوزخ کی آگ تیری جان گھٹانے والی ہوگی
بہر لقمہ اے سگِ مردار خو
می دوی صحرا بصحرا کو بکو
تیری تقدیر میں مردار حرام لکھاہے
اے آدم کے بیٹھے اسی لئے کتے کی سی عادت رکھتا ہے
خوار می گردی زبہر آب و ناں
درپئے سگ تا بکے باشی دواں
اے مردار کھانے والے کتے ایک لقمے کے لئے
جنگل جنگل کوچہ کوچہ دوڑتا پھرتا ہے
ہمرہاں رفتند و بے کس ماندہ ای
ہمچوں لنگا لنگ واپس ماندہ ای
روٹی اور پانی کے لئے تو دیس پھرتا ہے
کتے کے پیچھے کب تک دوڑے گا
فکر رفتن کن کہ می آید پلنگ
تابکے بنشینی اے مغلوب و لنگ
ساتھی چلے گئے اور تو اکیلا رہ گیا
لنگڑے لولے کی طرح توعاجز رہ گیا
خواب چوں آید ترا اے بے حیا
چوں پلنگِ مرگ داری در قفا
چلنے کی فکر کر کہ آتا ہے چیتا
تو کب تک عاجز اور لنگڑا ہوکر بیٹھے گا
باش کز بہرِ عدم خیزد نہنگ
تا قیامت خسپی اندر گورِ تنگ
اے بے شرم تجھے نیند کیسے آتی ہے
جب کہ موت کا چیتا تیرے پیچھے لگا ہے
تا ترا فرصت بود کارے بساز
اسپ تازی زیں کن و تازی بباز
ذرا صبر کہ کہ نیست کرنے کے لئے چیتا آتا ہے
قیامت تک قبر تنگ میں سوئے گا
روکہ در ملکِ بقا سلطان شوی
ناظر و منظور آں جاناں شوی
جب تک تجھے فرصت ہے کوئی کام کرلے
عربی گھوڑے پر زین کس کر بازی جیت لے
عاشقان را تاج شاہی برسرست
ساقیاہر دم لبالب ساغرست
چل کہ زندگی کے ملکِ میں بادشاہ بنے گا
اس معشوق کا عاشق اور معشوق بنے گا
ہر کہ اواز کید نفس خویش رست
عاقبت بر کرسی مقصد نشست
عاشقوں کے تاج شاہی سر پر ہے
ساقی ہر دم لبریز پیالہ لئے کھڑا ہے
اے شرف نشیندۂ سالک چہ گفت
گریہ کرد ایں بیت را باسوز گفت
جو شخص کہ اپنے نفس امارہ کے مکر سے آزاد ہو
آخرت میں مقصد کی کرسی پر بیٹھے گا
چشم بندوگوش بند و لب ببند
گر نہ بینی سر حق برما بخند
اے شرف تو نے نہیں سناکہ سالک نے کیا کہا
بڑے سوز اور درد دل کے ساتھ اس بیت کو کہا
زہد و تقویٰ نیست اے اہل جنوں
بہر شہرت می کنی خو د را نگوں
آنکھ بند کر اور کان بند کر اور لب بند کر
اگر پھر تو خدا کا راز نہ پاے تو ہم پر ہند
سرکنی پائیں و بالا پاکنی
از ریاضت خلق را شیدا کنی
اے دیوانے زہد اور پرہیزگاری یہ ہے
تو شہرت کے خیال میں اپنے آپ کو جھکا رہا ہے
ہمچو مجنوں عشق داری در مجاز
ہمچو لیلیٰ رخ نمائی در نیاز
سر نیچے پاؤں اوپر کر کے
لوگوں کو یہ ریاضت دکھا کر اپنا فریفتہ بناتا ہے
گاہ چوں شیریں کنی خونِ جگر
گہہ زنی چوں کوہکن تیشہ بسر
مجنوں کی طرح دنیا کی مخلوق کا عشق رکھتا ہے
لیلیٰ کی طرح اخلاص کا چہرہ دکھاتا ہے
اے حقیقت داں گذر کن از مجاز
چند باشی در مقامِ حرص و آز
کبھی تو شیریں کی طرح خون جگر پیتا ہے
کبھی فرہاد کی طرح تیشہ سر پر مارتا ہے
چند چینی لالۂ و نسریں و وَرد
چند بینی رنگِ سرخ و سبز و زرد
اے حقیقت کے جاننے والے مجاز سے در گذر
کب تک حرص ولالچ کے مقام میں رہے گا
چند در کثرت نمائی خویش را
یک زماں در خانۂ وحدت بیا
کب تک لالہ اور نسرین اور گلاب چنتا رہے گا
کب تک سرخ اور سبز اور زرد رنگ کو دیکھتا رہے گا
آشنا شو آنچناں از یار خویش
تاکہ خو در اگم کنی از کارِ خویش
کب تک کثرت میں اپنے آپ کو دکھاتا رہے گا
ایک دم کے لئے وحدت کے گھر میں آ
تاتوئی کے یار گردد یارِ تو
چوں نباشی یار باشد یارِ تو
اپنے یار سے ایسا آشنا بن
کہ اپنے کام سے اپنے آپ کو گم کر دیوے
یارب از سودائی ،خود دل ریش دار
زندہ را مردہ بعشقِ خویش دار
جب تک کہ تو ہے یار تیرا یار نہ ہوگا
جب تو نہ رہے گا یار تیرا یار رہے گا
آں چناں باخود بگرداں آشنا
تانگر دم یک زماں از تو جدا
اے پروردگار اپنے عشق سے دل کو زخمی کر
زندہ کو مردہ اپنے عشق سے رکھ
سوئے خویشم بَرکہ رہ گم کردہ ام
زندۂ جاوید گرداں مردہ ام
ایسا اپنے ساتھ آشنا کر
کہ ایک دم تجھ سے جدا نہ ہوں
زندہ گرداں ایں دل پژ مردہ را
زندہ کن با عشق جاناں مردہ را
اپنی طرف مجھ کو لے چل کہ میں راستہ بھول گیا ہوں
ہمیشہ کے لئے مجھے جلادے کیوں کہ میں مردہ ہوں
ہردلے کز عشق جانی یافتہ
تا ابد روحِ روانی یافتہ
اس مرجھائے ہوئے دل کو زندہ کردے
مردہ کو محبوب کے عشق سے زندہ کردے
بر دل ہر کس کہ نور عشق تافت
خویش را با جان جاناں زندہ یافت
جس دل نے کہ عشق سے جان پائی ہے
ہمیشہ کے لئے ایک زندہ جان پائی ہے
اے خوش آں دل عشق بروے نقش بست
خاتمِ دل کَند و روئے نقش بست
جس کے دل پر کہ عشق کا نور چمکا
اس نے اپنے آپ کو محبوب کے سبب سے زندہ پایا
دل کہ بر دلبر رسد از سازِ عشق
جاں کہ برجاناں دہد آوازِ عشق
کیا کہتے ہیں اس دل کے جس پر عشق نے نقش باندھا
اور اس میں سر کھود کر دل کو زینت دار کیا
دلربا از دلبری عشقت دہد
عشق کو تا جامۂ ہستی درد
دل وہی دل ہے کہ عشق کے ساز سے دلبر تک پہونچے
جان وہی جان ہے کہ محبوب کے پاس پہونچ کر عشق کی آواز لگائے
عشق کو بے بال و بر طیراں کند
عشق کو در لا مکاں جولاں کند
دل ربا دلبری سے عشق تجھ کو دیوے گا
عشق کہاں ہے کہ ہستی کے جامے کو چاک کرے
عشق کو تا تاجِ سلطانی نہد
عشق کو ملک ِسلیمانی دہد
عشق کہاں ہے کہ بغیر بازو اور پر کے اڑائے
عشق کہاں ہے کہ لامکاں تک دوڑائے
عشق کو تا چشم دل بینا کند
عشق کو تا سینہ پر سودا کند
عشق کہاں ہے کہ بادشاہی تاج پہناوے
عشق کہاں ہے کہ سلیمانی بادشاہت دیوے
عشق کو تا عقل را زائل کند
عشق کو تا عقل را کامل کند
عشق کہاں ہے کہ دل کی آنکھ روشن کرے
عشق کہاں ہے کہ سینہ کو جنوں سے بھردے
عشق کو تا جام مدہوشی دہد
عشق باید تا فراموشی کند
عشق کہاں ہے کہ عقل کو زائل کرے
عشق کہاں ہے کہ عقل کو کامل کرے
عشق دہ تابے خبر ساز د مرا
یا وہ گو بے پاؤ سر سازد مرا
عشق کہاں ہے کہ بیہوشی کا جام دیوے
عشق در کار ہے کہ فراموشی دیوے
عشق باید تا دہد جامِ شراب
عشق ساز دساغر مے آفتاب
الہی عشق دے کہ مجھ کو بے خبر کر دیوے
تجھے پاگل اور دیوانہ بنا دیوے
بادۂ عشق از غم جانانہ است
ہر کہ خورد از خویشتن بیگانہ است
عشق درکار ہے کہ جام شراب کا دیوے
عشق شراب کے پیالے کو آفتاب بنا دیتا ہے
عشق کو تا حالت مستاں دہد
عشق کو جام از کفِ جاناں دہد
عشق کی شراب سے مراد محبوب کا غم ہے
جس نے پی خودی سے بیگانہ ہوا
اے خوش آں می کور ہا نداز خودی
صاف گرداند زنیکی و بدی
عشق کہاں ہے کہ مستوں کی حالت دیوے
عشق کہاں ہے کہ معشوق کے ہاتھ سے جام دلوائے
ہیچ می دانی کہ اصل عشق چیست
عشق را از حسنِ جاناں زند گیست
کیا خوب ہے وہ شراب کہ چھڑا دے خودی سے
نیکی اور بدی سے صاف کر دیوے
حسنِ جاناں چوں نظر در خویش کرد
گشت شیدا عشق را در پیش کرد
تجھے کچھ خبر ہے کہ عشق کی اصل کیا ہے
عشق کی معشوق کے حسن سے زندگی ہے
عشق چوں جبریل در معراجِ حسن
بر سر عاشق نہد صد تاجِ حسن
محبوب کے حسن نے جب اپنی طرف نظر کی
اپنا عاشق آپ بنا اور عشق کو ظاہر کیا
عاشق و معشوق گردند ہر دو یک
ہم توئی معشوق و عاشق نیست شک
عشق جبریل کی طرح حسن کی معراج میں
عاشق کے سر پر حسن کے سو تاج پہناتا ہے
اے کہ گشتی واقف از اسرارِ عشق
نہ قدم مردانہ اندر کارِ عشق
عاشق اور معشوق دونوں ایک ہوجاتے ہیں
تو ہی ہے عاشق اور تو ہی ہے معشوق بس اور کوئی نہیں
سر بر آور زیر پائے عشق نہ
بعد ازاں سر در ہوائے عشق نہ
اے کہ تو عشق کے راز سے واقف ہوا
اب مردوں کی طرح قدم عشق کے کام میں رکھ
عش بازی نیست کارِ بوالہوس
خام طبعاں را بدن ہمچوں مگس
سر اٹھا کر عشق کے قدم کے نیچے رکھ دے
اس کے بعد عشق کے آرزو میں مشغول ہوجا
گرکنی جاں را تو بر جاناں نثار
در عوض یک جاں دہد صد جاں نگار
بوالہوس کا کام عشق بازی نہیں ہے
خام طبعوں کو مثل مکھی کے سمجھ
کشتگانِ عشق را جانِ دگر
ہر زماں از غیب احسانِ دگر
اگر تو جان کو جاناں پر نچھاور کرے گا
تو وہ جاناں ایک جان کے عوض تجھے سو جانیں دےگا
ار توانی اے دلا در عشق کوش
ایں حکایت راز عاشق دار گوش
عشق کے مقتولوں کو دوسری جان ملتی ہے
اور ہر دم غیب سے دوسری ان پر عطا ہوتی ہے
اے خنک جانے کہ خود را باختہ
سوختہ خود را و باحق ساختہ
اگر ہوسکے تو اے دل عشق میں کوشش کر
یہ بات عاشق سے یاد رکھ
خرم آں کس کو قمارِ عشق باخت
خویش را بسپر دو با جاناں بساخت
وہ کیا خوش جان ہے جس نے اپنے آپ کو عشق میں مارا
اپنے آپ کو جلا کر محبوب سے جاملی
ہمت پروانہ بیں اے بے خبر
سوز چوں پروانہ تا یابی خبر
کیا خوب ہے وہ شخص جس نے عشق کا جوا کھیلا
اپنے آپ کوپائمال کرکے محبوب تک پہونچا
سوخت چوں پروانہ ہمرنگ دوست
گشت محرم چنگ زدبر چنگ دوست
اے بے خبر پروانے کی ہمت کو دیکھ
اور پروانے کی طرح تو جل تاکہ خبردار بنے
در محبت تا نسوزی بال و پر
کے شوی ہمرنگ آتش سر بسر
جب کہ مثل پروانہ اپنے آپ کو جلا کر دوست کا ہمرنگ بنا
رازدار ہو اور دوست کے پنجے میں پنجہ مارا
سوز چوں پروانہ در جسم فقس
تاشوی با جان جاناں ہم نفس
محبت میں جب تک تو بازو اور پر نہ جلائے گا
آگ کا ہمرنگ بالکل نہ بنے گا
زہد و تقویٰ چیست اے عالی جناب
برد بر مراد خود نگشتن کامیاب
پروانے کی طرح جسم کے پنجرے میں جل
تاکہ محبوب کی جان کے ساتھ تو ہمدم بنے
یک زماں خوش دل نباشی در جہاں
وارہی فارغ شوی از این و آں
اے عالی جناب زہد و تقویٰ کیا ہے
اپنی مرا د کو چھوڑ بیٹھنا
دل بدستِ غم چناں داری گرو
شادی عالم نیر زدینم ِجو
ایک دم تو جہاں میں خوش دل نہ ہووے
سب کو چھوڑ دے اور اس کی فکر سے بے فکر ہوجاوے
دل بود از ہر دو عالم بے نیاز
بگذر از روئے حقیقت از مجاز
دل کو غم کے ہاتھ میں اس طرح گروی کرے تو
کہ دنیا کی خوشی آدھے جو برابر مول نہ رکھے
اے دریغا عمر تو رفتہ بخواب
اندکے ماندست او را زود یاب
دل دونوں جہاں سے بے حاجت ہووے
حقیقت کے خیال میں مجاز کو چھوڑ دیوے
عمر تو باشد مثالِ آب جو
آب رفتہ باز کے آید بجو
افسوس ہے کہ عمر تیری خواب غفلت میں گذری
تھوڑی سی رہی ہے اس کو جلدپا
در جہاں چوں چند روزی مہماں
ایں جہاں را بر مثال خواب داں
تیری عمر نہر کے پانی کے مانند ہے
پانی گیا ہوا دوبارہ نہر میں کب آتا ہے
خلق را بیں لعبتان نقشِ آب
چشم چوں برہم زنی بینی خراب
جب کہ تو جہان میں چند روز کے لئے مہمان ہے
بس اس جہاں کو مثل خواب کے سمجھ
ہر چہ می بینی بگرداب جہاں
چوں حباب از چشم تو گردو نہاں
لوگوں کو پانی کے نقش کی گڑیا سمجھ
کہ ایک پلک جھپکانے میں ویران دیکھے گا
غافلی از کرد ہائے خویشتن
نفس را با تیغِ لا گردن بزن
جو کچھ توجہان کے بھنور میں دیکھتا ہے
بلبلے کی طرح تیری آنکھ سے پوشیدہ ہوجاتا ہے
دل مکن از فکر با طلہا سیاہ
از خدا غیر از خدا دیگر مخواہ
تو اپنے اعمال سے بے خبر ہے
نفس کی لاکے تلوار سے گردن مار
چوں زبان گو یاست در تن مو بمو
مو بمو ذکرِ خدا را نیز گو
بیہودہ فکروں سے دل کو کالا مت کر
خدا سے خدا کے سوا غیر کی آرزو مت کر
دل مدہ با دلبرانِ بے وفا
زانکہ دارند شیوۂ جور و جفا
جب کہ تن میں ہر بال زبان کی طرح بولنے والا ہے
ہر بال سے خدا کا ذکر کر
از جہاں مہرو وفا معدوم شد
حالِ مردم یک بیک معلوم شد
بے وفا دلبروں کو دل مت دے
اس لئے کہ یہ ظلم و ستم کی عادت رکھتے ہیں
آشنائیہا بر افتاد از جہاں
شرم شستہ شد زچشم مرد ماں
جہان سے محبت اور وفا داری نا پید ہوگئی
ایک ایک آدمی کا حال معلوم ہوگیا
اے دریغا وضع نیکاں شد بدل
درد یار حلم افتادہ خلل
دوستیاں جاتی رہیں جہاں سے
لوگوں کی آنکھ میں شرم نہ رہی
قحط افتادست در ملک سخا
خشک گشتہ مزرع مہرو وفا
افسوس ہے کہ نیکی نہ کی وضع بدل گئی
بردباری اور حلم کے ملک میں آفت پڑی
تیغ ممسک شجرۂ احساں برید
ہم چو عنقا ہمت از عالم پرید
سخاوت کے ملک میں قحط پڑ گیا
محبت اور وفا داری کا کھیت سوکھ کر رہ گیا
ہمتے رفتست از شاہ و گدا
منعماں گشتند گدائے بینوا
بخیل کی تلوار نے احسان کے درخت کو کاٹ ڈالا
عنقاکی طرح ہمت جہان سے اڑ گئی
ہمتے برخاست از صاحب دلاں
دارم از دست زمانہ صد فغاں
بادشاہ اور فقیر سے ہمت چلی گئی
انعام کرنے والے فاقہ مست فقیر بن گئے
ایں نشاں ہائے قیامت شد پدید
تاقیامت در جہاں گردد پدید
صاحب دلوں سے ہمت جاتی رہی
زمانے کے ہاتھ سے سو فریادیں رکھتا ہوں
برکت از کشت و زراعت گشت کم
قامت جوو و سخاوت گشت خم
یہ قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوئیں
تاکہ دنیا میں قیامت ظاہر ہووے
رحم از دلہائے مردم شد نہاں
سختیٔ پیدا شدہ بر مردماں
برکت کھیتی باڑی سے گھٹ گئی
بخشش اور سخاوت کا قد جھک گیا
خلقِ نیکو شد زعالم نا پدید
طبعِ مردم سگ صفت گشتہ پلید
رحم آدمیوں کے دل سے جاتا رہا
لوگوں پر ایک سختی پیدا ہوگئی
مہر گم شد از دلِ فرزند و زن
فتنہ برپا گشت از دیرِ کہن
نیک خصلت جہاں سے گم ہوگئی
آدمیوں کی طبیعت کتے کی طرح ناپاک ہوگئی
چوں چناں بر خاست عالم گشت تنگ
دختراں باما دراں دارند جنگ
محبت جاتی رہی بیٹے اور بیوی کے دل سے
پرانے بت خانے سے فتنہ برپا ہوا
نیست مہرے درد دل ہر خاص و عام
پس میفگن خویش را در بندِ دام
جب کہ ایسا ہنگامہ مچا جہاں تنگ ہوگیا
بیٹیاں ماؤں کے ساتھ لڑنے لگیں
چوں عدم شد دانۂ مہرو وفا
پس مرو در دام چوں مرغِ ہوا
ہر خاص اور عام کے دل میں محبت نہیں ہے
پس اپنے آپ کو جال کے پھندے میں مت ڈال
بند بگسل دام را بر ہم بزن
آشیانِ حرص را آتش فگن
جب کہ محبت اور وفا داری کا دانہ ناپید ہوگیا
پس خواہش کے جال میں چڑیا کی طرح مت جا
جز خدا کس نیست باتو مہرباں
دل مدہ غیر از خداوند جہاں
قید کو توڑ ،جال کو الٹ دے
حرص کے گھونسلے میں آگ لگا دے
شکر نعمت کن کہ آن رب العباد
داد بر تو انچہ می بایست داد
نعمت کا شکر کر کہ اس بندوں کے پروردگار نے
ہر چیز جس کی تجھے حاجت تھی دی
چشم داد و گوش و بینی ہم زباں
بر تو روشن کرد اسرار نہاں
آنکھ کان ناک زبان دی
پوشیدہ بھیدوں کو تجھ پر ظاہر کیا
غافلی از یار خود اے بے خبر
چند باشی بے خبر چوں گاؤ خر
اے بے خبر تو اپنے یار سے غافل ہے
کب تک گائے اور گدھے کی طرح بےخبر رہے گا
نیستی آگاہ از لطفِ خدا
ہمچو عاشق ہر زماں بیند ترا
تو خدا کی مہربانی سے واقف نہیں ہے
کہ وہ ہر دم عاشق کی طرح تجھ کو دیکھتا ہے
مہرباں ہم شد چو معشوق ِمجاز
گربہ بیند جانبِ عاشق بناز
دنیا کا معشوق جب مہربان ہوتا ہے
اگر عاشق کی طرف دیکھتا ہے تو ناز کے ساتھ
عاشقِ صادق کند جاں را فدا
مرحبا بر عاشقاں صد مرحبا
سچا عاشق اپنی جان فدا کرتا ہے
شاباش ہے عاشقوں کو سو شاباش
طالبی کو درپے جاناں رود
چشم گردد روئے جاناں بنگرد
جو طالب کہ معشوق کے پیچھے جاتا ہے
آنکھ بن جاتا ہے اور معشوق کا چہرہ دیکھتا ہے
گر ترا از عشق او باشد خبر
از تو مشتاقست او مشتاق تر
اگر تجھے اس کے (خدا کے) عشق سے خبر ہووے
تو تُو جانے کہ وہ تیرا مشتاق تجھ سے بڑھ کر ہے
گر ترا چشم محبت وا شود
برتو آں معشوق خود شیدا شود
اگر تیری محبت کی آنکھ کھل جاوے
تو تُو دیکھے کہ معشوق تو خود تجھ پر شیدا ہے
باتو نزد یکست آں جانِ جہاں
در تو چوں جانست آں جانان نہاں
وہ محبوب جہان کا تیرے نزیک ہے
اور تجھ میں جان کی طرح دو محبوب پوشیدہ ہے
چوں تو داری چشم احول بے بصر
کے در آید روئے جاناں در نطر
جبکہ تو اے اندھے کج نظر ہے
معشوق کی صورت کو کیسے دیکھ سکتا ہے
ایں حجاب از تست اے محجوب من
بےحجابست ورنہ آں محبوبِ من
یہ پردہ تجھی سے ہے اے پردہ میں چھپے ہوئے
ورنہ تیرا محبوب توبے پر وہ ہے
پیش ِمردن میر اے نیکو ِسیَر
جاں بجاناں دہ زحالِ خود گذر
اے نیک خصلت مرنے سے پہلے مر
جان معشوق کو دے دے اپنے حال سے در گذر
گر بمعشوقی تو از خود جان دہی
قالبِ خود را کنی از جاں تہی
اگر تو معشوق کو اپنی جان دیوے
اور اپنے جسم کو جان سے خالی کردے
در تو گردد جانِ جاناں جلوہ گر
خویش را باچشم ِمعشوقے نگر
تجھ میں محبوب کی جان جلوہ گر ہوگی
پھر اپنے آپ کو معشوق ہونے کی آنکھ سے نظر کر
عارفے گفتست از روئے عتاب
گوش کن چوں ایں معمائے بیاب
ایک خدا شناس نے غصے کی راہ سے کہا ہے
ذرا اس راز کو سن اور سمجھ
گر نداری شادیٔ از وصلِ یار
خیز برخود ماتم ہجراں بدار
اگر تو یار کے وصل سے خوشی نہیں رکھتا ہے
تو اٹھ اور جدائی کا ماتم اپنے اوپر کر
اے شرف تاچند گردی دور دور
قطع منزلہا بکن اے بے قصور
اے شرف کب تک دور دور مارا پھرے گا
اے بے قصور منزلوں کو قطع کر
چند پیمائی رہِ دور و دراز
چند رفتی از نشیبے بر فراز
کب تک تو راہ دور دراز طے کرے گا
کب تک نیچائی سے اونچائی پر چڑھے گا
یک قدم باشد حریم دوست بس
چند گردی بے خبر اے بوالہوس
ایک قدم پر دوست کی بارگاہ اور بس
کب تک اے بوالہوس توبے خبر رہے گا
منزل جاناں بود یک گام تو
بادۂ عرفاں بود در جامِ تو
محبوب کی منزل تیرے ایک قدم پر ہے
معرفت کی شراب تیرے پیالے میں بھری ہے
ہر نفس در یادِ او گامے بزن
ہر زباں از عشق او جامے بزن
ہر دم اس کی یاد میں قدم رکھ
ہر دم اس کے عشق کا جام پی
مولوی فرمود نشیندی مگر
سنگ، گرمی بود می کردی اثر
شاید تو نے نہیں سنا مولانا روم نے فرمایا
اگر پتھر ہوتا تو اس میں بھی اثر کرتا
اے کماں از تیرہا پُر ساختہ
صید نزدیک ست و دور انداختہ
اے وہ کہ کمان کو تیروں سے بھرے ہے
شکار تو نزدیک ہے تو دور پھینک رہا ہے
از کہ مہجوری و دوری اے فلاں
آہ از دستِ تو دارم صد فغاں
کس سبب سے اے فلاں تو دور او ربچھڑا ہوا ہے
آہ میں تیری ہاتھ سے سو فریاد رکھتا ہوں
اے کماں تیر از ترازو دور تر
از چنیں صیدےبود مہجور تر
اے وہ کہ تیری کمان کا تیر شکار سے دور پڑ رہا ہے
ایسے شکار سے تو جدا ہی رہے گا
چشم دل بکشا جمال یار بیں
ہر طرف ہر سو،رخ ِدلدار بیں
دل کی آنکھ کھول یار کا جمال دیکھ
ہر طرف ہر جگہ دلدار کا رخ دیکھ
چشم باید تابہ بیند روئے یار
جلوۂ کردست در ہر شے نگار
آنکھ در کار ہے تاکہ یار کا چہرہ دیکھے
محبوب ہر چیز میں جلوہ کئے ہے
نیست پوشیدہ رخ ِدلدار تو
لیک ایں نقصست در ابصار ِتو
تیرے دلدار کا رخ پوشیدہ نہیں ہے
لیکن یہ نقصان ہے تیری آنکھوں میں
گرمیٔ کو در تو اے افسردہ دل
رفت ہمچوں خر فرو در آب وگل
اے سرد دل تجھ میں گرمی کہاں ہے
گدھے کی طرح تو دلدل میں پھنسا ہے
درد مندے کو کہ در مانش نیافت
کو پریشانے کہ سامانش نیافت
ایسا درد مند کہاں ہے کہ اس نے علاج نہ پایا
ایسا پریشان کہاں ہے کہ اس نے سامان نہ پایا
کیست مشتاقے کہ باشد جاں بلب
از فراق او بود در تاب و تب
کہاں ہے ایسا مشتاق کہ جاں بلب ہو
اس کی جدائی سے بے قرار ہو
تابود ایں دیوِ نفست ہم نشیں
کے بود بینا ترا چشمِ یقیں
جب تک کہ نفس وشیطان تیرا ساتھی رہے گا
تیری یقین کی آنکھ ہر گز بینا نہ ہووے گی
چوں تو مقدوری نداری فتح یاب
گریہ کن تا حشر بر حالِ خراب
جب کہ تو فتح یابی کی قدرت نہیں رکھتا
قیامت تک تجھے اپنے حال کی خرابی پر رونا چاہئے
- کتاب : مثنوی بو علی شاہ قلندر (Pg. 2)
- Author :بو علی شاہ قلندر
- مطبع : مطبع قیومی کانپور (1926)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.