فرستادن شاه رسولاں بہ سمرقند بآوردن زرگر
دلچسپ معلومات
اردو ترجمہ: سجاد حسین
فرستادن شاه رسولاں بہ سمرقند بآوردن زرگر
بادشاہ کا ایلچیوں کو سمرقند روانہ کرنا، اس سنار کی تلاش میں
شہ فرستاد آں طرف یک دو رسول
حاذقان و کافیان بس عدول
پھر ایک دو قاصد اس طرف روانہ کیے
جو ماہر، کارگزار اور بہت نیک تھے
تا سمرقند آمدند آں دو رسول
از برائے زرگر شنگ فضول
وہ دونوں سردار سمر قند میں آئے
اس سنار کے پاس بادشاہ کی طرف سے خوشخبری لے کر
کایے لطیف استاد کامل معرفت
فاش اندر شہرہا از تو صفت
کہ اے نازک کام کرنے والے استاد پوری شناخت والے!
شہروں میں تیری خوبی پھیلی ہوئی ہے
نک فلاں شہ از برائے زرگری
اختیارت کرد زیرا مہتری
اب فلاں بادشاہ نے زیور گھڑنے کے لیے
تجھے چنا ہے کیونکہ تو (زر گری میں) سردار ہے
ایں کہ ایں خلعت بگیر و زر و سیم
چوں بیائی خاص باشی و ندیم
اب یہ جوڑا اور سونا ، چاندی لے
(اور) جب تو آئیگا، خاص اور ہم نشیں ہوگا
مرد مال و خلعت بسیار دید
غره شد از شہر و فرزنداں برید
مرد نے جب بہت سا مال اور جوڑا خلعت تو دیکھا
تو فریفتہ ہوگیا (اور) شہر اور اولاد سے جدا ہو گیا
اندر آمد شادماں در راه مرد
بے خبر کاں شاہ قصد جانش کرد
مرد، خوشی خوشی راستے پر پڑ گیا
(اس سے) بے خبر کہ بادشاہ نے اس کی جان کا ارادہ کیا ہے
اسب تازی بر نشست و شاد تاخت
خوں بہاۓ خویش را خلعت شناخت
عربی گھوڑے پر بیٹھا، اور خوشی خوشی دوڑا
(اور) اپنے خون کے عوض کو شاہی جوڑا سمجھا
اے شدہ اندر سفر باصد رضا
خود بہ پائے خویش تا سوء القضا
افسوس کہ ہنسی خوشی سفر کرنے والا
اپنے پاؤں سے بری موت کی طرف روانہ ہوا ہے
در خیالش ملک و عز و مہتری
گفت عزرائیل روئے آرے بری
اس کے خیال میں تو حکومت و عزت اور سرداری تھی
ملک الموت نے کہا کہ جا ہاں یہ سب چیزیں تو حاصل کرے گا
چوں رسید از راه آں مرد غریب
اندر آوردش بہ پیش شہہ طبیب
جب وہ مسافر راستہ طے کر کے آ پہنچا
تو طبیب اس کو بادشاہ کے سامنے لایا
سوئے شاہنشاه بردندش بناز
تا بہ سوزد بر سر شمع طراز
اس کو بادشاہ کے سامنے بڑے ناز کے ساتھ لے گیا
تا کہ اس کو طراز کی شمع کے سر پر جلا دے
شاہ دید او را بسی تعظیم کرد
مخزن زر را بدو تسلیم کرد
بادشاہ نے اس کو دیکھا اور بہت تعظیم کی
(اور) سونے کا خزانہ اسکے سپرد کر دیا
پس حکیمش گفت کایے سلطان مہ
آں کنیزک را بدیں خواجہ بدہ
پھر طبیب نے اس سے کہا اے بڑے بادشاہ!
وہ لونڈی اس سردار (سنار) کو دیدے
تا کنیزک در وصالش خوش شود
آب وصلش دفع آں آتش شود
تاکہ لونڈی اس کے وصل سے خوش ہو جائے
اور اس کے وصل کا پانی اس آگ کا دافع ہو
شہ بدو بخشید آں مہ روے را
جفت کرد آں ہر دو صحبت جوئے را
بادشاہ نے وہ چاند سے مکھڑے والی اس کو بخش دی
ان دونوں وصل چاہنے والوں کا نکاح کر دیا
مدت شش ماہ می راندند کام
تا بصحت آمد آں دختر تمام
چھ مہینہ (کی مدت) تک انہوں نے مقصد بر آری کی
یہاں تک کہ اس لڑکی کو پوری صحت ہوگئی
باد از از بہر او شربت بساخت
تا بخورد و پیش دختر می گداخت
اس کے بعد اس (طبیب ) نے اس کے لیے شربت بنایا
جس کو وہ پیتا اور لڑکی سامنے گھلتا تھا
چوں ز رنجوری جمال او نماند
جان دختر در وبال او نماند
جب مرض کی وجہ سے اس کا حسن نہ رہا
تو لڑکی کی جان اس کے وبال میں نہ رہی
چونکہ زشت و ناخوش و رخ زرد شد
اندک اندک در دل او سرد شد
چونکہ، بدصورت اور ناگوار اور زرد رو ہو گیا
آہستہ آہستہ اس کے دل میں (عشق) ٹھنڈا ہو گیا
عشق ہاۓ کز پئے رنگے بود
عشق نبود عاقبت ننگے بود
وہ عشق ، جو رنگ کی خاطر ہوتا ہے
عشق نہیں ہوتا ، انجام کار ذلت ( و رسوائی) ہوتی ہے
کاش کاں ہم ننگ بودے یکسری
تا نرفتے بر وے آں بد داوری
کاش وہ عار (حسن ظاہری) پائیدار ہوتا
تاکہ اس پر یہ ظلم نہ ہوتا
خوں دوید از چشم ہمچوں جوۓ او
دشمن جان وے آمد روئے او
اس کی نہر جیسی آنکھوں سے خون بہنے لگا
(اور) اس کا چہرہ اس کی جان کا دشمن بنا
دشمن طاؤس آمد پر او
اے بسی شہ را بکشتہ فر او
مور کے دشمن اس کے پر ہوئے
(اور) بہت سے شاہوں کو ان کی شان و شوکت نے مارا
گفت من آں آہوم کز ناف من
ریخت آں صیاد خون صاف من
اس نے کہا، میں وہ ہرن ہوں کہ میری ناف سے
اس صیاد نے میرا صاف خون بہا دیا
اے من آں روباہ صحرا کز کمیں
سر بریدندش براۓ پوستیں
اے (مخاطب) میں جنگل کی وہ لومڑی ہوں کہ گھات میں بیٹھ کر
پوستین کے لئے انہوں نے میرا سر کاٹ لیا
اے من آں پیلے کہ زخم پیلباں
ریخت خونم از براۓ استخواں
میں وہ ہاتھی ہوں کہ پیلباں کے زخم نے
ہڈیوں کی خاطر میرا خون بہا دیا
آنکہ گشتستم پیے مادون من
می نداند کہ نخسپد خون من
جس نے مجھے مجھ سے کم تر کی خاطر مار ڈالا
اس کو معلوم نہیں کہ میرا خون رائیگاں نہ جائے گا
بر منست امروز و فردا بر ویست
خون چوں من کس چنیں ضایع کے ست
مصیبت آج مجھ پر اور کل اس پر ہے
مجھ جیسے آدمی کا خون یوں رائیگاں کیسے ہو سکتا ہے
گرچہ دیوار افکند سایہ دراز
باز گردد سوئے او آں سایہ باز
اگرچہ دیوار لمبا سایہ ڈالتی ہے
لیکن وہ سایہ پھر اس کی طرف لوٹتا ہے
ایں جہاں کوہست و فعل ما ندا
سوئے ما آید نداہا را صدا
یہ دنیا ایک پہاڑ ہے اور ہمارا فعل آواز
آوازوں کی گونج ہماری طرف لوٹتی ہے
ایں بگفت و رفت در دم زیر خاک
آں کنیزک شد ز عشق و رنج پاک
یہ کہا اور فوراً زیر زمین چلا گیا
وہ لونڈی درد و غم سے نجات پا گئی
زانکہ عشق مردگاں پاینده نیست
زانکہ مردہ سوئے ما آینده نیست
اس لئے کہ مردوں سے عشق پائیدار نہیں ہے
اس لئے کہ مردہ ہماری طرف واپس آنے والا نہیں ہے
عشق زنده در رواں و در بصر
ہر دمے باشد ز غنچہ تازه تر
زندہ کا عشق روح اور آنکھ (باطن و ظاہر ) ہیں
ہر وقت غنچہ سے بھی زیادہ ترو تازہ رہتا ہے
عشق آں زنده کزیں کو باقی ست
کز شراب جاں فزایت ساقی ست
اس زندہ کا عشق اختیار کر جو سدا رہنے والا ہے
اور جانفرا شراب سے مجھے سیراب کرنے والا ہے
عشق آں بہ گزیں کہ جملہ انبیا
یافتند از عشق او کار و کیا
اس کا عشق اختیار کر کہ تمام نبیوںؑ نے
اس کے عشق سے عزو شرف پایا
تو مگو ما را بر آں شہ بار نیست
با کریماں کار ہا دشوار نیست
تو یہ نہ کہہ کہ ہماری رسائی اس بادشاہ تک نہیں ہے
کریموں پر بڑے کام دشوار نہیں ہوتے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.