سید ہجویر مخدوم امم
مرقد او پیر سنجر را حرم
ہجویر کے سید (حضرت داتا گنج بخش) قوموں کے مخدوم ہیں، ان کا مزار خواجہ معین الدین چشتی کے لیے حرم کی طرح تھا۔
بند ہائے کہسار آساں گسیخت
در زمین ہند تخم سجدہ ریخت
انہوں نے (اپنے وطن کے) کہسار کی بندشیں آسانی سے توڑ دیں اور ہندوستان کی زمین میں سجدے کا بیج بویا۔
عہد فاروق از جمالش تازہ شد
حق ز حرف او بلند آوازہ شد
ان کے نور و برکت سے حضرت عمر فاروق کے زمانے کی یاد تازہ ہوگئی، ان کے اقوال سے حق کی آواز بلند ہوئی۔
پاسبان عزت ام الکتاب
از نگاہش خانۂ باطل خراب
وہ قرآن مجید کی عزت کے پاسبان تھے، ان کی نگاہ سے باطل کا گھر اجڑ گیا۔
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت
صبح ما از مہر او تابندہ گشت
ان کے دم سے پنجاب کی خاک زندہ ہوگئی، ہماری صبح ان کے سورج سے جگمگا اٹھی۔
عاشق و ہم قاصد طیار عشق
از جبینش آشکار اسرار عشق
وہ عاشق تھے اور عشق کے نہایت تیز پرواز قاصد تھے، ان کی پیشانی سے عشق کے راز ظاہر تھے۔
داستانے از کمالش سر کنم
گلشنے در غنچۂ مضمر کنم
ان کے کمالات میں سے ایک کی داستان سناتا ہوں، پورے گلشن کو ایک کلی میں چھپا کر پیش کرتا ہوں۔
نوجوانے قامتش بالا چو سرو
وارد لاہور شد از شہر مرو
ایک نوجوان جس کا قد سرو کی طرح بلند تھا، شہر مرو سے لاہور آیا۔
رفت پیش سید والا جناب
تا رباید ظلمتش را آفتاب
وہ سیدِ والا جناب کی خدمت میں پہنچا تاکہ وہ اپنے اندھیروں کو (ان کی ہدایت کے) آفتاب سے دور کرے۔
گفت محصور صف اعدا ستم
درمیان سنگہا مینا ستم
اس نے کہا کہ میں دشمنوں کی صف میں گھرا ہوا ہوں اور میں پتھروں کے درمیان صراحی (کی طرح) ہوں۔
با من آموز اے شہ گردوں مکاں
زندگی کردن میان دشمنان
اے آسماں پر مکاں رکھنے والے بادشاہ، مجھے دشمنوں کے درمیاں زندگی بسر کرنا سکھا دیجیے۔
پیر دانائے کہ در ذاتش جمال
بستہ پیمان محبت با جلال
وہ واقف راز بزرگ کہ جن کی ذات میں جمال بھی تھا اور جن کا پیمانِ محبت جلال سے بندھا تھا۔
گفت اے نامحرم از راہ حیات
غافل از انجام و آغاز حیات
بولے : اے رازِ حیات سے ناواقف اور زندگی کے آغاز و انجام سے غافل!۔
فارغ از اندیشہ اغیار شو
قوت خوابیدہ بیدار شو
دوسروں کے اندیشوں سے خو دکو فارغ کر لے اور اپنی سوئی ہوئی قوت کو بیدار کر۔
سنگ چوں بر خود گمان شیشہ کرد
شیشہ گردید و شکستن پیشہ کرد
جب پتھر خود کو شیشہ سمجھ لیتا ہے تو وہ شیشہ بن جاتا ہے اور ٹوٹنا اختیار کر لیتا ہے۔
ناتواں خود را گیا رہرو شمرد
نقد جان خویش با رہزن سپرد
اگر رہرو خود کو کمزور شمار کرلیتا ہے تو اپنی جان کی دولت رہزن سپرد کر دیتا ہے۔
تا کجا خود را شماری ما و طین
از گل خود شعلۂ طور آفریں
تو کب تک خود کو پانی اور مٹی شمار کرتا رہے گا، اپنی مٹی سے طور کا شعلہ پیدا کر۔
با عزیزاں سرگرداں بودن چرا
شکوہ سنج دشمناں بودن چرا
عزیزوں سے خفا رہنا کیوں اور دشمنوں کی شکایت کرنا کیوں۔
راست می گویم عدو ہم یار تست
ہستیٔ او رونق بازار تست
میں سچ کہتا ہوں، سارے دشمن تیرے دوست ہیں، ان کے وجود سے تیرے بازار کی رونق ہے۔
ہر ایک دانائے مقامات خودیست
فضل حق داند اگر دشمن قویست
جو شخص خودی کے مقامات سے واقف ہے، وہ اسے خدا کا فضل سمجھتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے۔
کشت انسان را عدو باشد سحاب
ممکناتش را بر انگیزد ز خواب
انسان کی کھیتی کے لیے دشمن بادل ہوتا ہے، وہ اس کے امکانات کو خواب سے بیدار کرتا ہے۔
سنگ رہ آب است اگر ہمت قویست
سیل را پست و بلند جادہ چیست
اگر ہمت مضبوط ہے تو راستے کا پتھر پانی بن جاتا ہے، طوفانی دھارے کے لیے راستے کی پستی اور بلندی کیا چیز ہے۔
سنگ رہ گردد فسان تیغ عزم
قطع منزل امتحان تیغ عزم
حوصلے کی تلوار کے لیے راستے کا پتھر، سان بن جاتا ہے، منزل کاٹنا حوصلے کی تلوار کا امتحان ہے۔
مثل حیواں خوردن آسودن چہ سود
گر بہ خود محکم نہ ای بودن چہ سود
جانور کی طرح کھانے پیٹ بھرنے سے کیا فائدہ، اگر خود میں پختگی نہ آئی تو کیا حاصل۔
خویش را چوں از خودی محکم کنی
تو گیا خواہی جہاں برہم کنی
خود کو خودی سے اس طرح پختہ کر کہ اگر تو چاہے تو جہان کو درہم برہم کر دے۔
گر فنا خواہی ز خود آزاد شو
گر بقا خواہی بہ خود آباد شو
اگر فنا ہونا چاہتا ہے تو اپنی خودی سے بے تعلق ہو جا، اگر باقی رہنا چاہتا ہے تو خودی کو محفوظ کر لے۔
چیست مردن از خودی غافل شدن
تو چے پنداری فراق جان و تن
مر جانا کیا ہے؟ خودی سے غافل ہوجانا، کیا تو سمجھتا ہے کہ یہ جان و تن کا جدا ہو جانا ہے۔
در خودی کن صورت یوسف مقام
از اسیری تا شہنشاہی خرام
حضرت یوسف کی طرح تو خودی میں قیام کر اور غلامی سے شہنشاہی جانب قدم بڑھا۔
از خودی اندیش و مرد کار شو
مرد حق شو حامل اسرار شو
خودی میں غوطہ لگا اور صاحب عمل بن، مردِ حق اور واقفِ راز ہو۔
شرح راز از داستانہا می کنم
غنچہ از زور نفس وا می کنم
میں داستانوں سے راز کی تشریح کرتا ہوں، پھونکوں کے زور سے کلی کو کھولتا ہوں۔
خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیث دیگراں
(بقول مولانا روم) ”یہ بہتر ہے کہ معشوقیوں کے راز، دوسروں کی باتوں کے ذریعے بیان کیے جائیں“
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.