Sufinama

متابعت کردن نصاریٰ وزیر را

رومی

متابعت کردن نصاریٰ وزیر را

رومی

MORE BYرومی

    متابعت کردن نصاریٰ وزیر را

    نصارایٰ کے ذریعہ وزیر کی متابعت

    دل بدو دادند ترسایاں تمام

    خود چہ باشد قوت تقلید عام

    تمام عیسائیوں نے اس کو دل دے دیا

    عام تقلید کی قوت (بھی) کیا ہوتی ہے

    در درون سینہ مہرش کاشتند

    نایب عیسٰیش می پنداشتند

    انہوں نے اپنے سینوں میں اس کی محبت کا بیچ بو لیا

    وہ اس کو حضرت عیسیٰ کا نائب سمجھ رہے تھے

    او بسر دجال یک چشم لعیں

    اے خدا فریاد رس نعم المعیں

    وہ خفیہ طور پر ملعون کانا دجال ہے

    اے خدا، اچھےمددگار ہماری فریاد سن

    صد ہزاراں دام و دانہ ست اے خدا

    ما چو مرغان حریص بے نوا

    اے خدا لاکھوں، جال اور دانے ہیں

    اور ہم لالچی بھوکے پرندوں کی طرح ہیں

    دم بہ دم ما بستۂ دام نویم

    ہر یکے گر باز و سیمرغے شویم

    ہم ہروقت ایک نئے جال میں گرفتار ہیں

    اگرچہ ہم سب باز اور سیمرغ بن جائیں

    می رہانی ہر دمے ما را و باز

    سوۓ دامے می رویم اے بے نیاز

    تو ہمیں ہر وقت چھڑا تا ہے اور پھر

    ہم کسی جال کی طرف چل دیتے ہیں ، اے بے نیاز!

    ما دریں انبار گندم می کنیم

    گندم جمع آمدہ گم می کنیم

    ہم اس بورے میں گیہوں بھرتے ہیں

    جمع شدہ گیہوں کو گم کر دیتے ہیں

    می نیندیشیم آخر ما بہ ہوش

    کیں خلل در گندمست از مکرموش‌‌

    جب ہم عقل سے سوچتے ہیں

    تو گیہوؤں میں یہ کمی چوہے کی مکاری سے ہے

    موش تا انبار ما حفره ز دست

    وز فنش انبار ما ویراں شدست

    چوہے نے ہمارے بورے میں سوراخ کر لیا ہے

    اس کے مکر سے ہمارا ذخیرہ برباد ہو گیا ہے

    اول اے جاں دفع شر موش کن

    وانگہاں در جمع گندم جوش کن

    اے عزیز! پہلے چوہے کی شرارت کو دفع کر

    پھر گیہوں جمع کرنے کی کوشش کر

    بشنو از اخبار آں صدر صدور

    لا صلاة تم الا با لحضور

    صدروں کے صدر کی یہ حدیث سن لے

    کہ کوئی نماز بغیر حضور قلب کے مکمل نہیں ہوتی

    گر نہ موشے دزد در انبار ماست

    گندم اعمال چل سالہ کجاست

    اگر کوئی چوہا ہمارے بورے میں چور نہیں ہے

    تو چالیس سالہ اعمال کے گیہوں کہاں ہیں؟

    ریزے ریزے صدق ہر روزے چرا

    جمع می ناید دریں انبار ما

    ہر روز کا ذرا ذرا سا صدق کیوں

    ہمارے اس انبار میں جمع نہیں ہوتا ہے؟

    بس ستارہ آتش از آہن جہید

    واں دل سوزیده پذرفت و کشید

    آگ کی بہت سی چنگاریاں لوہے سے نکلیں

    اور اس دیوانے دل نے ان کو قبول اور جذب کیا

    لیک در ظلمت یکے دزدے نہاں

    می نہد انگشت بر استارگاں

    لیکن ایک چھپا ہوا چور اندھیرے میں

    چنگاریوں پر انگلی دہر دیتا ہے

    می کشد استارگاں را یک بیک

    تا کہ نفروزد چراغے از فلک

    چنگاریوں کو فوراً بجھا دیتا ہے

    تا کہ آسمان پر کوئی روشن چراغ نہ ہو

    گر ہزاراں دام باشد در قدم

    چوں تو با مائے نباشد ہیچ غم

    اگر ہر قدم پر ہزاروں جال ہوں

    جب تو ہمارے ساتھ ہے تو کچھ غم نہیں

    ہر شبے از دام تن ارواح را

    می رہانی می کنی الواح را

    روحوں کو بدن کے جال سے ہر شب

    تو رہا کر دیتا ہے، تختیاں اکھاڑ دیتا ہے

    میرہند ارواح ہر شب زیں قفس

    فارغاں از حکم و گفتار و قصص

    روحیں ہر شب اس پنجڑے (جسم) سے چھوٹ جاتی ہیں

    فارغ البال بغیر افسری اور ماتحتی کے

    شب ز زنداں بے خبر زندانیاں

    شب ز دولت بے خبر سلطانیاں

    (جس طرح) رات کو قیدی، قید خانے سے بے خبر ہوتے ہیں

    (اور) رات کو کارکنان، سلطنت سے بے خبر ہوتے ہیں

    نے غم و اندیشۂ سود و زیاں

    نے خیال ایں فلان و آں فلاں

    نہ کسی کو فائدہ اور نقصان کا غم اور فکر

    نہ اس فلانے اور اس فلانے کا خیال

    حال عارف ایں بود بے خواب ہم

    گفت ایزد ہم رقود زیں مرم

    خدا شناس کی یہ حالت بغیر نیند کے بھی ہوتی ہے

    خدا نے فرمایا ہے وہ سوئے ہوئے ہیں اس سے نہ بھاگ

    خفتہ از احوال دنیا روز و شب

    چوں قلم در پنجۂ تقلیب رب‌‌

    وہ دن و رات دنیا کے احوال سے غافل ہوتا ہے

    خدا کے دست تصرف میں قلم کی طرح ہے

    آنکہ او پنجہ نبیند در رقم

    فعل پندارد بہ جنبش از قلم

    وہ (شخص) جو لکھنے میں ہاتھ کو نہیں دیکھتا

    وہ قلم کی حرکت کو اسی کا فعل سمجھتا ہے

    شمۂ زیں حال عارف وانمود

    خلق را ہم خواب حسی در ربود

    عارف کے حال کا کچھ حصہ (اللہ نے) واضح کر دیا ہے

    کہ لوگوں کو حسی نیند بھی بے خود کر دیتی ہے

    رفتہ در صحراۓ بے چوں جاں شاں

    روح شاں آسوده و ابدانشاں

    ان کی جان ایک بے مثال بیابان میں چلی جاتی ہے

    ان کی روح اور ان کے بدن آرام میں ہوتے ہیں

    وز صفیرے باز دام اندر کشی

    جملہ را در داد و در داور کشی

    سیٹی کے ذریعہ تو پھر جال بچھا دیتا ہے

    سب کو مصیبت کے جال میں پھانس دیتا ہے

    فالق الإصباح اسرافیل وار

    جملہ را در صورت آرد زاں دیار

    صبح کو پیدا کرنے والا، اسرافیل کی طرح

    ان جگہوں سے سب کو صورت میں لاتا ہے

    روحہاۓ منبسط را تن کند

    ہر تنے را باز آبستن کند

    منتشر روحوں کو جسم میں لے آتا ہے

    ہر جسم کو پھر باردار کرا دیتا ہے

    اسب جان ہا را کند آری ز زیں

    سر النوم اخ الموتست ایں

    روح کے گھوڑے کو زین سے ننگا کر دیتا ہے

    نیند موت کی بہن ہے کا مطلب یہی ہے

    لیک بہر آں کہ روز آیند باز

    بر نہد بر پاش پابند دراز

    لیکن اس لئے کہ وہ دن میں واپس آئیں

    ان کے پیر میں لمبی رسی باندھ دیتا ہے

    تا کہ روزش واکشد زاں مرغزار

    وز چراگاه آردش در زیر بار

    تاکہ اس سبزہ زار سے دن میں واپس لے آئے

    اور چراگاہ سے اس کو بوجھ کے نیچے لاتا ہے

    کاش چوں اصحاب کہف ایں روح را

    حفظ کردے یا چو کشتی نوح را

    کاش اصحاب کہف کی طرح اس روح کو

    محفوظ کر دیتا یا اس طرح جیسے کشت‏ئ نوح کی حفاظت کی

    تا ازیں طوفان بیداری و ہوش

    وا رہیدے ایں ضمیر و چشم و گوش‌‌

    تاکہ بیداری اور ہوش کے اس طوفان سے

    چھوٹ جاتے ، یہ دل اور آنکھ اور کان

    اے بسا اصحاب کہف اندر جہاں

    پہلوۓ تو پیش تو ہست ایں زماں

    اے (مخاطب)بہت سے اصحاب کہف دنیا کے اندر

    تیرے پہلو میں، تیرے سامنے اب بھی موجود ہیں

    غار با او یار با او در سرود

    مہر بر چشمست و بر گوشت چہ سود

    یار اور غار (دونوں) ان کے ہمساز ہیں

    لیکن تیری آنکھ اور کان پر تو مہر ہے،کیا فائدہ

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے