Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

پاۓ واپس کشیدن خرگوش از شیر چوں نزدیک چاه رسید

رومی

پاۓ واپس کشیدن خرگوش از شیر چوں نزدیک چاه رسید

رومی

MORE BYرومی

    دلچسپ معلومات

    اردو ترجمہ: سجاد حسین

    پاۓ واپس کشیدن خرگوش از شیر چوں نزدیک چاه رسید

    کنویں کے پاس آکر خرگوش کا شیر سے پیچھے ہٹنا

    چونکہ نزد چاہ آمد شیر دید

    کز رہ آں خرگوش ماند و پا کشید

    جب شیر کنویں کے پاس پہنوچا، دیکھا

    کہ خرگوش پیچھے رہ گیا اور ہٹ گیا

    گفت پا واپس کشیدی تو چرا

    پاۓ را واپس مکش پیش اندر آ

    اُس (شیر) نے کہا تو پیچھے کیوں ہٹا؟

    پیچھے کو نہ ہٹ ، آگے آ

    گفت کو پایم کہ دست و پاۓ رفت

    جان من لرزید و دل از جاۓ رفت‌‌

    اُس نے کہا (خرگوش) کہاں ہیں، میرے ہاتھ پیر ختم ہو گئے

    روح کانپ رہی ہے دِل دھڑک رہا ہے

    رنگ رویم را نمی بینی چو زر

    ز اندروں خود می دہد رنگم خبر

    میرے چہرے کا رنگ نہیں دیکھ رہا ہے، سونے کا سا

    میرا رنگ اندرونی حالت کی خبر دے رہا ہے

    حق چو سیما را معرف خوانده است

    جسم عارف سوۓ سیما مانده است

    جب اللہ نے پیشانی کو حال بتا نیوالا فرمایا ہے

    پہچاننے والے کی نگاہ، پیشانی پر پڑتی ہے

    رنگ و بو غماز آمد چوں جرس

    از فرس آگاہ کند بانگ فرس‌‌

    رنگ اور بو، گھڑیال کی طرح چغلخور ہے

    گھوڑے کی آواز، گھوڑے کی خبر دیدیتی ہے

    بانگ ہر چیزے رساند زر خبر

    تا بدانی بانگ خر از بانگ در

    ہر چیز کی آواز اس کی خبر دیدیتی ہے

    گدھے کی آواز کو دروازے کی آواز سے جدا سمجھ

    گفت پیغمبر بتمییز کساں

    مرء مخفی لدیٰ طی اللساں

    انسانوں کے پہچاننے کے سلسلہ میں پیغمبر( صلی اللہ علیہ وسلم) نےفرمایا

    انسان زبان بند رکھنے کے وقت، پوشیدہ ہے

    رنگ‌ رو از حال دل دارد نشاں

    رحمتم کن مہر من در دل نشاں

    چہرہ کا رنگ، دل کی حالت کی علامت ہے

    مجھ پر رحم کر، دل میں میری محبّت بٹھا

    رنگ روۓ سرخ دارد بانگ شکر

    بانگ رو و قوت و سیما بہ برد

    سُرخ چہرے کی رنگت ، شکر کی صدا رکھتی ہے

    زرد چہرے کی رنگت، صبر اور تکلیف ( کی علامت) رکھتی ہے

    در من آمد آنکہ دست و پا بہ برد

    رنگ رو و قوت و سیما بہ برد

    مجھ میں وہ چیز آگئی جو حواس باختہ کر دیتی ہے

    چہرے کا رنگ اور طاقت اور نشانی ختم کر دیتی ہے

    آنکہ در ہر چہ در آید بشکند

    ہر درخت از بیخ و بن او بر کند

    مجھ میں وہ چیز آگئی جو جس چیز میں آجائے اس کو شکستہ کر دے

    درخت کو جڑ اور بنیاد سے اکھاڑ دے

    در من آمد آنکہ از وے گشت مات

    آدمی و جانور جامد نبات

    مجھ میں وہ چیز آگئی جس میں مات کھا گئے

    انسان اور جانور، جما دات اور نباتات

    ایں خود اجزا اند کلیات ازو

    زرد کرده رنگ و فاسد کردہ بو

    یہ چھوٹی چیزیں ہیں لیکن بڑی چیزیں انکی وجہ سے

    رنگت زرد کئے ہوئے ہیں اور بو بگاڑے ہوئے ہیں

    تا جہاں گہہ صابرست و گہ شکور

    بوستاں گہہ حلہ پوشد گاہ عور

    یہاں تک کہ دنیا کبھی صابر ہے اور کبھی شکر گزا

    باغ کبھی جوڑا پہنتا ہے، کبھی ننگا ہے

    آفتابے کو بر آید نار گوں

    ساعتے دیگر شود او سرنگوں

    سورج جو آگ کی طرح بر آمد ہوتا ہے

    دوسرے وقت وہ اوندھا ہو جاتا ہے

    اخترانے تافتہ بر چار طاق

    لحظہ لحظہ مبتلاۓ احتراق‌‌

    چار گوشہ خیمہ( آسمان) پر چمکنے والے یہ ستارے

    دم بدم جلنے میں مبتلا ہیں

    ماہ کو افزود ز اختر در جمال

    شد ز رنج دق مانند خیال

    چاند جو حُسن میں ستاروں سے بڑھا ہوا ہے

    دِق کے مرض کی وجہ سے ہلالی کی طرح ہے

    ایں زمین با سکون با ادب

    اندر آرد زلزلہ ہش در لرز تب

    یہ پُر سُکون اور با ادب زمین

    زلزلہ اس کو جاڑے بخار میں مبتلا کر دیتا ہے

    اے بسا کہ زیں بلاۓ مرد ریگ

    گشتہ است اندر جہاں او خرد و ریگ‌‌

    اے (مخاطب) بہت سے پہاڑ اِس ذیل مصیبت سے

    دنیا میں وہ باریک ریتہ بن گئے ہیں

    ایں ہوا با روح آمد مقترن

    چوں قضا آید شود زشت و عفن‌‌

    یہ ہوا جو روح سے وابستہ ہے

    جب قضا آتی ہے تو وبا اور گندی بن جاتی ہے

    آب خوش کو روح را ہم شیرہ شد

    در غدیرے زرد و تلخ و تیره شد

    خوشگوار پانی اگرچہ روح کا بھائی بن گیا ہے

    لیکن گڑھے میں زرد اور کڑوا اور گدلا ہو گیا

    آتشے کو باد دارد در بروت

    ہم یکے بادے برو خواند یموت‌‌

    آگ جو نہایت سرکش اور مغرور ہے

    یکایک اس پر ہوا’’تو مرے‘‘ پڑھ دیتی ہے

    حال دریا ز اضطراب و جوش او

    فہم کن تبدیلہاۓ ہوش او

    دریا کا حال اس کے اضطراب وجوش سے

    سمجھ لے۔ یہی اس کے ہوش کی تبدیلی ہے

    چرخ سرگرداں کہ اندر جستجوست

    حال او چوں حال فرزندان اوست‌‌

    سرگرداں آسماں جو جستجو میں ہے

    اس کی حالت اس کے فرزندوں جیسی ہے

    گہ حضیض و گاہ اوسط گاہ اوج

    اندرو از سعد و نحسے فوج فوج‌‌

    کبھی حضیض اور کبھی اوسط، کبھی اوج

    اس میں فوج در فوج سعد اور نحس ہیں

    خود اے جزوے ز کلہا مختلط

    فہم می کن حالت ہر منبسط

    اپنے سے، اے جزو جو کُل سے مِلا جلا ہے

    ہر مفرد کی حالت کو سمجھ لے

    چونکہ کلیات را رنجست و درد

    جزو ایشاں چوں نباشد روۓ زرد

    جب کلّیات کو رنج اور درد ہے

    توان کا جزو کیوں زرد چہرہ نہ ہوگا

    خاصہ جزوے کو ز اضدادست جمع

    ز آب و خاک و آتش و بادست جمع

    خصوصاً وہ جزو جو اَضداد کا مجموعہ ہے

    پانی اور مٹّی اور آگ اور ہوا کا مجموعہ ہے

    ایں عجب نبود کہ میش از گرگ جست

    ایں عجب کیں میش دل در گرگ بست

    یہ تعجّب کی بات نہوگی کہ بھیڑ، بھیڑئے سے چھوٹ بھاگی

    یہ تعجّب ہے کہ بھیڑ نے بھیڑئے سے دل لگا لیا

    زندگانی آشتی ضدہاست

    مرگ آں کاندر میاں شاں جنگ خاست

    زندگی، مخالف چیزوں کا باہمی تعلّق ہے

    موت یہ ہے کہ ان کے درمیان جنگ شروع ہوگئی

    لطف حق ایں شیر را و گور را

    الف دادست ایں دو ضد دور را

    اللہ کا کَرم ہے کہ شیر اور گورخر

    دو مخالفوں کو وفاداری میں الفت عطا کر دی

    چوں جہاں رنجور و زندانی بود

    چہ عجب رنجور اگر فانی بود

    جب دنیا بیمار اور قیدی ہو

    تو کیا تعجّب ہے اگر بیمار فانی ہو

    خواند بر شیر او ازیں رو پندہا

    گفت من پس مانده‌‌ ام زیں بندہا

    اس نے شیر کو اس قسم کی نصیحتیں سنائیں

    بولا میں ان رکاوٹوں کی وجہ سے پیچھے رہا ہوں

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے