قصۂ آدم علیہ السلام و بستن قضا نظر او را از مراعات صریح نہی و ترک تاویل
حضرتِ آدم علیہ السّلام کا قصّہ اور قضا کا اُن کی آنکھ کو بند کر
دینا صاف ممانعت کی نگاہ داشت سے اور ممانعت کو ترک کرنا اور تاویل کرنا
بو البشر کو علم الاسما بگست
صد ہزاراں علمش اندر ہر رگست
انسانوں کا باپ جو عَلّم الاسماء کا سردار ہے
جس کی ہر رگ میں لاکھوں علم ہیں
اسم ہر چیزے چناں کآں چیز ہست
تا بپایاں جان او را داد دست
ہر چیز کا نام جس طرح وہ چیز ہے
آخر تک ان کی جان کو حاصل ہو گیا
ہر لقب کو داد آں مبدل نشد
آنکہ چستش خواند او کاہل نشد
جو لقب اس نے دیا وہ نہ بدلا
جس کو اس نے چُست کہا وہ سست نہ ہوا
ہر کہ آخر مومنست اول بدید
ہر کہ آخر کافر او را شد پدید
جو آخرت میں مومن ہے، شروع میں دیکھ لیا
جو آخر میں کافر ہے وہ اس پر ظاہر ہوگیا
اسم ہر چیزے تو از دانا شنو
سر رمز علم الاسما شنو
تو ہر چیز کا نام عقلمند سے سُن
عَلّم الاسْما، کا اشارہ اور راز سُن
اسم ہر چیزے بر ما ظاہرش
اسم ہر چیزے بر خالق سرش
ہمارے نزدیک ہر چیز کا نام اس کے ظاہر پر ہے
اللہ کے نزدیک ہر چیز کا نام اسکے باطن پر ہے
نزد موسیٰ نام چوبش بد عصا
نزد خالق بود نامش اژدہا
موسیٰ (علیہ السّلام) کے نزدیک انکی لکڑی کا نام عصا تھا
اللہ کے نزدیک اس کا نام اژِدہا تھا
بد عمر را نام اینجا بت پرست
لیک مومن بود نامش در الست
اس جگہ عُمر کا نام بُت پرست تھا
لیکن ازل میں اس کا نام مُومن تھا
آنکہ بد نزدیک ما نامش منی
پیش حق بودے تو کیں دم با منی
وہ جس کا نام ہمارے نزدیک منی تھا
اللہ کے سامنے وہ صورت تھی جیسا کہ تو میرے سامنے ہے
صورتے بود ایں منی اندر عدم
پیش حق موجود نہ بیش و نہ کم
عدم میں یہ منی ایک صورت تھی
جو خدا کے سامنے بغیر کمی بیشی کے موجود تھی
حاصل آں آمد حقیقت نام ما
پیش حضرت کآں بود انجام ما
الحاصل ہمارا نام وہی حقیقت بنا
جو اللہ کے سامنے ہمارا انجام تھا
مرد را بر عاقبت نامے نہد
نے بر آں کو عاریت نامے نہد
انسان کا انجام کے اعتبار سے نام رکھتے ہیں
نہ اُس پر جو چند روز کے لئے رکھتے ہیں
چشم آدم چوں بنور پاک دید
جان و سر نامہا گشتش پدید
حضرتِ آدمؑ کی آنکھ نے پاک نور کے ذریعہ دیکھا
ناموں کی حقیقت اور راز اُن پر ظاہر ہو گیا
چوں ملک انوار حق در وے بیافت
در سجود افتاد و در خدمت شتافت
جب فرشتوں نے اللہ کے انوار اُن پر پائے
سربسجود ہوئے اور خدمت کے لئے دوڑے
ایں چنیں آدم کہ نامش می برم
گر ستایم تا قیامت قاصرم
جس آدم کا میں نام لے رہا ہوں انکی تعریف سے
اگر میں قیامت تک مدح کروں تو قاصر رہوں
ایں ہمہ دانست و چوں آمد قضا
دانش یک نہی شد بر وے خطا
وہ یہ سب جان گئے اور جب قضا آئی
ایک ممانعت کی سمجھ میں اُن سے غلطی ہوئی
کے عجب نہی از پۓ تحریم بود
یا بتاویلے بد و توہیم بود
تعجّب ہے! ممانعت حرام ہونیکی وجہ سے تھی
یا کسی تاویل کی وجہ سے تھی اور دہم میں ڈالنا تھا
در دلش تاویل چوں ترجیح یافت
طبع در حیرت سوۓ گندم شتافت
ان کے دل میں جب تاویل نے ترجیح حاصل کر لی
طبیعت، حیرانی میں گیہوں کی طرف ڈوڑ پڑی
باغباں را خار چوں در پاۓ رفت
دزد فرصت یافت و کالا برد تفت
جب باغباں کے پیر میں کانٹا چبھ گیا
چور نے موقع پالیا، تیزی سے سامان لے بھاگا
چوں ز حیرت رست باز آمد بہ راہ
دید برده دزد رخت از کار گاہ
جب حیرت سے اُنہیں چھٹکارا ملا، راستہ پر آئے
دیکھا، کارخانے سے چور سامان لے بھاگا
ربنا انا ظلمنا گفت و آه
یعنی آمد ظلمت و گم گشت راہ
’’ہمارے رب ہم نے ظلم کیا‘‘ کہا اور آہ کی
یعنی اندھیرا چھا گیا اور راستہ گم ہو گیا
ایں قضا ابرے بود خورشید پوش
شیر و اژدرہا شود زو ہمچو موش
یہ قضا سورج کو چھپالینے والا ابر ہے
اس سے شیر اور اژدہا، چوہے کی طرح بنجاتا ہے
من اگر دامے نہ بینم گاہ حکم
من نہ تنہا جاہلم در راہ حکم
اگر میں قضا کے وقت جال نہیں دیکھتا ہوں
میں ہی تنہا قضا کے راستہ میں بے خبر نہیں ہوں
اے خنک آں کو نکو کاری گرفت
زور را بگذاشت او زاری گرفت
اے (مخاطب) قابلِ مبارکباد ہے وہ شخص جو نیکی کرے
زور کو چھوڑ دے اور عاجزی کرے
گر قضا پوشد سیہ ہمچوں شبت
ہم قضا دستت بگیرد عاقبت
اگر قضا سیاہ بنکر تجھے رات کی طرح ڈھانپ لے
بالآخر قضا ہی تیری دستگیری کرے گی
گر قضا صد بار قصد جاں کند
ہم قضا جانت دہد درماں کند
اگر قضا سو بار تیری جان لینا چاہے
قضا ہی تیری جاں بخشی کرے گی، علاج کریگی
ایں قضا صد بار اگر راہت زند
بر فراز چرخ خرگاہت زند
یہ قضا اگر سو بار تھے لوٹتی ہے
آسمان کی وسعت پر تیرا خیمہ گاڑتی ہے
از کرم دان ایں کہ می ترساندت
تا بملک ایمنی بنشاندت
کرم سمجھ یہ کہ قضا تجھے ڈراتی ہے
تاکہ امن کی سرزمین میں تجھے بٹھا دے
ایں سخن پایاں ندارد گشت دیر
گوش کن تو قصۂ خرگوش و شیر
اس بات کی انتہا نہیں ہے، دیر ہو گئی
شیر اور خرگوش کا قصہ سُن
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.