Sufinama

قصۂ مکر خرگوش‌‌

رومی

قصۂ مکر خرگوش‌‌

رومی

MORE BYرومی

    قصۂ مکر خرگوش‌‌

    خرگوش کا شیر کے ساتھ چالاکی کرنے اور انجام کو پہنچانے کا قصہ

    ساعتے تاخیر کرد اندر شدن

    بعد ازاں شد پیش شیر پنجہ زن

    جانے میں ایک گھنٹہ تاخیر کی

    اس کے بعد پنجہ زن شیر کے آگے گیا

    زاں سبب کاندر شدن او ماند دیر

    خاک را می کند و می‌‌ غرید شیر

    اس نے کہا میں نے کہا تھا کہ ان کمینوں کا عہد

    کچا ہوگا اوربرا اور نا مکمل ہوگا

    گفت من گفتم کہ عہد آں خساں

    خام باشد خام و سست و نا رساں

    ان کے مکر نے مجھے مار ڈالا

    یہ زمانہ آخر مجھے کتنا فریب دے گا ؟

    دمدمۂ ایشاں مرا از خر فگند

    چند بفریبد مرا ایں دہر چند

    بیوقوف حاکم بہت عاجز رہتا ہے

    جب اپنی بیوقوفی سے نہ آگا دیکھے نہ پیچھے

    سخت درماند امیر سست ریش

    چوں نہ پس بیند نہ پیش از احمقیش‌‌

    لفظ اور نام جالوں کی طرح ہیں

    میٹھا لفظ ہماری عمر کے پانی کا ریت ہیں

    راه ہمواریست و زیرش دامہا

    قحط معنی درمیان نامہا

    وہ ریت جس سے پانی ابلے

    بہت کمیاب ہے، جا اس کو تلاش کر

    لفظہا و نامہا چوں دامہاست

    لفظ شیریں ریگ آب عمر ماست

    دانائی کا طالب ، دانائی کا چشمہ بنجاتا ہے

    وہ تحصیلِ علم اور سببِ (ظاہری) سے بے نیاز ہوجاتا ہے

    آں یکے ریگے کہ جوشد آب ازو

    سخت کمیابست رو آں را بجو

    حافظ کی لوح، لوحِ محفوظ بن جاتی ہے

    اس کی عقل روح سے بہرہ یاب ہوجاتی ہے

    منبع حکمت شود حکمت طلب

    فارغ آید او ز تحصیل و سبب‌‌

    عقل، شروع میں جو اس کی استاد تھی

    اس کے بعد عقل اس کی شاگرد بن گئی

    لوح حافظ لوح محفوظے شود

    عقل او از روح محظوظے شود

    مجھے پیچھے چھوڑ دیجیئے اور آپ آگے جائیے

    اے جہاں کے بادشاہ! میری یہ سرحد تھی

    چوں معلم بود عقلش مرد را

    بعد ازیں شد عقل شاگردے و را

    جو شخص سستی کی وجہ سے بے شر اور بے صبر رہا

    وہ سمجھتا ہے کہ اُس نے جبر کا پایہ تھا ماہے

    عقل چوں جبریل گوید احمدا

    گر یکے گامے نہم‌‌ سوزد مرا

    جس نے جبر اختیار کیا اُس نے خود کو بیمار بنا لیا

    یہاں تک کہ اُسکو اسی بیماری نے قبر میں پہنچا دیا

    تو مرا بگذار زیں پس پیش راں

    حد من ایں بود اے سلطان جاں

    پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا کہ مذاق کی بیماری

    مرض پیدا کر دیتی ہے یہاں تک کہ (مریض) چراغ کی طرح بجھ جاتا ہے

    ہر کہ ماند از کاہلی بے شکر و صبر

    او ہمیں داند کہ گیرد پاۓ جبر

    جبر کیا ہے؟ ٹوٹے ہوئے کو باندھنا

    یا ٹوٹی رگ کو جوڑنا

    ہر کہ جبر آورد خود رنجور کرد

    تا ہماں رنجوریش در گور کرد

    جب تونے اِس راہ میں اپنے پیر کو نہیں توڑا ہے

    کس پر ہنستا ہے، پاؤں کو کیوں باندھا ہے؟

    گفت پیغمبر کہ رنجوری بہ لاغ

    رنج آرد تا بہ میرد چوں چراغ

    جس نے کوشش کی راہ میں اپنے پیر کو توڑا

    اُس کے لئے بُراق پہونچا اور وہ سوار ہوا

    جبر چہ بود بستن اشکستہ را

    یا بپیوستن رگے بگسستہ را

    وہ دین کا بوجھ اٹھا نیوالا تھا (اب ) سوار بن گیا

    اللہ کے فرمان کو قبول کرنیوالا تھا، مقبول (بارگاہ) ہو گیا

    چوں دریں رہ پاۓ خود نشکستۂ

    بر کہ می خندی چہ پا را بستۂ

    اب تک بادشاہ کا فرمان مانتا تھا

    اِ س کے بعد سپاہیوں کا فرماں روا ہوگیا

    وانکہ پایش در رہ کوشش شکست

    در رسید او را براق و بر نشست

    اب تک ستارہ اُس میں اثر کرتا تھا

    اِس کے بعد وہ ستارے کا حاکم ہو گا

    حامل دیں بود او محمول شد

    قابل فرماں بد او مقبول شد

    اگر تجھ کو اِس میں اِشکال نظر آتا ہے

    تَو تُو اِنشَقَّ الْقمَر میں شک رکھتا ہے

    تا کنوں فرماں پذیرفتے ز شاہ

    بعد ازیں فرماں رساند بر سپاہ

    ایمان کو تازہ کر لے، نہ صرف زبانی

    اے وہ شخص جس نے اپنے اندر خواہش کو تازہ کیا ہے

    تا کنوں اختر اثر کردے در او

    بعد ازیں باشد امیر اختر او

    جب تک خواہش تازہ ہے، ایمان تازہ نہیں ہے

    خواہش کے علاوہ اُس دروازہ کا کوئی قفل نہیں ہے

    گر ترا اشکال آید در نظر

    پس تو شق داری در انشق القمر

    تونے اچھوتے حرف میں تاویل کی ہے

    اپنے آپ کو بدل، قرآن میں تاویل نہ کر

    تازہ کن ایماں نہ از گفت زباں

    اے ہوا را تازہ کردے در نہاں

    خواہش کے مطابق تو قرآن کی تاویل کرتا ہے

    تیری وجہ سے روشن معنیٰ پست اور کج ہو گئے ہیں

    تا ہوا تازہ ست ایماں تازہ نیست

    کیں ہوا جز قفل آں دروازہ نیست

    کردۂ تاویل حرف بکر را

    خویش را تاویل کن نے ذکر را

    بر ہوا تاویل قرآں می کنی

    پست و کژ شد از تو معنی سنی

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے