Sufinama

ہم در بیان مکر خرگوش

رومی

ہم در بیان مکر خرگوش

رومی

MORE BYرومی

    ہم در بیان مکر خرگوش

    یہ بیان بھی خرگوش کی چالاکی اور اُس کا شیر کے سامنے دیر سے جانیکا ہے

    در شدن خرگوش بس تاخیر کرد

    مکرہا با خویشتن تقریر کرد

    خرگوش نے جانے میں بہت دیر کی

    اور اپنی حیلہ سازی کو ثابت کیا

    در رہ آمد بعد تاخیر دراز

    تا بگوش شیر گوید یک دو راز

    بہت دیر کے بعد راستہ پر پڑا

    تاکہ شیر کے کان میں ایک دو راز کہے

    تا چہ عالم ہاست در سودائے عقل

    تا چہ با پہناست ایں دریاۓ عقل‌‌

    دیکھ! عقل کے فکر میں کا عالم ہیں

    دیکھ! یہ عقل کا دریا کسقدر وسیع ہے

    صورت ما اندریں بحر عذاب

    می دود چوں کاسہا بر روئے آب

    ہماری صورتیں اِس شیریں سمندر میں

    اِس طرح دوڑ رہی ہیں جس طرح پانی کی سطح پر

    تا نہ شد پر بر سر دریا چو طشت

    چونکہ پر شد طشت در وے غرق گشت

    جب تک بھرا نہیں ، طشت دریا کے اوپر ہے

    جب طشت بھرا اس میں غرق ہوا

    عقل پنہانست و ظاہر عالمے

    صورت ما موج یا از وے نمے

    عقل مستور ہے اور عالَم ظاہر ہے

    ہماری صورت موج یا اُس کی نمی ہے

    ہر چہ صورت می وسیلت سازدش

    ز آں وسیلت بحر دور اندازدش‌‌

    جو موجود (متعین) ہے صورت اُسکو وسیلہ بنا لیتی ہے

    اُس وسیلہ کی وجہ سے سمندر اُسکو دور پھینکدیتا ہے

    تا نبیند دل دہندہ راز را

    تا نبیند تیر دور انداز را

    جب تک دل ، راز عطا کرنیوالے کو نہ دیکھ لے

    جب تک کہ تیر، دور سے پھینکنے والے کو نہ دیکھ لے

    اسب خود را یا وہ داند وز ستیز

    می دواند اسب خود در راه تیز

    اپنے گھوڑے کو گم شدہ سمجھتا ہے

    اور جھگڑے کی وجہ سے اپنے گھوڑے کو تیز دوڑاتا ہے

    اسب خود را یا وہ داند آں جواد

    واسب خود او را کشاں کردے چو باد

    وہ جوانمرد، اپنے گھوڑے کو گم شدہ سمجھتا ہے

    اور گھوڑا اس کو ہوا کی طرح اڑائے لئے جا رہا ہے

    در فغاں و جست و جو آں خیرہ سر

    ہر طرف پرسان و جویاں در بدر

    وہ حیران فریاد اور جستجو میں ہے

    ہر جانب پوچھنے والا اور دربدر تلاش کرنیوالا ہے

    کانک دزدید اسب ما را کو و کیست

    ایں کہ زیر ران تست اے خواجہ چيست

    جس شخص نے ہمارا گھوڑا چرایا ہے کہاں ہے کون ہے؟

    اے صاحب! یہ جو آپ کی ران تلے ہے یہ کیا ہے

    آرے ایں اسبست لیکن اسب کو

    با خود آ اے شہسوار اسب جو

    ہاں، یہ گھوڑا ہے، لیکن وہ گھوڑا کہاں ہے؟

    اے گھوڑے کی جستجو کرنیوالے شہسوار! ہوش میں آ

    جاں ز پیدایی و نزدیکیست گم

    چوں شکم پر آب و لب خشکے چو خم

    جان ، نمایاں اور قریب ہونیکی وجہ سے گم ہے

    جس طرح مٹکا پانی سے بھرا ہو اور کنارے خشک ہوں

    کے بہ بینی سرخ و سبز و فور را

    تا نہ بینی پیش ازیں سہ نور را

    تو سرخ اور سبز اور گلابی کو کب دیکھ سکیگا؟

    جب تک ان تین سے پہلے، نور کو نہ دیکھ لیگا

    لیک چوں در رنگ گم شد ہوش تو

    شد ز نور آں رنگ ‌ہا رو پوش تو

    لیکن چونکہ تیرے ہوش رنگ میں گم ہو گئے ہیں

    تو وہ رنگ، نور کی وجہ سے تیرے رو پوش بنگئے ہیں

    چونکہ شب آں رنگ ‌ہا مستور بود

    پس بدیدی دید رنگ از نور بود

    چونکہ وہ رنگ رات کو چھپے ہوئے تھے

    لہٰذا تونے دیکھ لیا رنگ کا دیکھنا نور کی وجہ سے تھا

    نیست دید رنگ بے نور بروں

    ہم چنیں رنگ خیال اندروں

    رنگ کا دیکھنا بیرونی روشنی کے بغیر نہیں ہوتا

    یہی حال اندرونی خیال کے رنگ کا ہے

    ایں بروں از آفتاب و از سہا

    واں دروں از عکس انوار علی

    یہ باہر کی روشنی آفتاب اور سُہا کی وجہ سے ہے

    وہ باطنی روشنی عالَمِ بالا کے اَنوار کے عکس سے ہے

    نور نور چشم خود نور دلست

    نور چشم از نور دلہا حاصلست‌‌

    خود بینائی کا نور، دل کا نور ہے

    بینائی کا نور دلوں کے نور سے حاصل ہوتا ہے

    باز نور نور دل نور خداست

    کوز نور عقل و حس پاک و جداست‌‌

    پھر دل کی بَصیرت کا نور خدا کا نور ہے

    جو عقل اور حس کے نور سے پاک اور جدا ہے

    شب نبد نور ندیدی رنگ را

    پس بضد نور پیدا شد ترا

    رات کو نور نہ تھا اور تونے رنگ نہ دیکھا

    پس ضد (شب کی تاریکی) کی وجہ وہ نور نمایاں ہو گیا

    دیدن نورست آنگہ دید رنگ

    ویں بضد نور دانی بے درنگ‌‌

    پہلے نور کا نظر آنا ہے پھر رنگ کا دیکھنا

    اور اُس کو تو نور کی ضد سے بغیر تاخیر سمجھتا ہے

    رنج و غم را حق پئے آں آفرید

    تا بدیں ضد خوش دلی آید پدید

    اللہ تعالیٰ نے رنج کو اِس لئے پیدا فرمایا ہے

    تاکہ اِس ضد سے خوشدلی واضح ہو جائے

    پس نہانیہا بضد پیدا شود

    چونکہ حق را نیست ضد پنہاں بود

    پس پوشیدہ چیزیں ضد سے واضح ہوتی ہیں

    اللہ تعالیٰ کی چونکہ کوئی ضد نہیں ہے وہ پوشیدہ ہے

    کہ نظر بر نور بود آنگہ برنگ

    ضد بضد پیدا بود چوں روم و زنگ

    کیونکہ نور پر نظر تھی پھر رنگ پر ایک مقابل

    دوسرے مقابل سے واضح ہوتا ہے جیسے رومی اور حبشی

    پس بضد نور دانستی تو نور

    ضد ضد را می نماید در صدور

    پس نور کی ضد سے تو نور کو پہچا نا

    ضد، ضد کو سینوں میں واضح کر دیتی ہے

    نور حق را نیست ضدے در وجود

    تا بضد او را تواں پیدا نمود

    اللہ کے نور کی بھی ضد وجود میں نہیں ہے

    تاکہ ضد سے اُسکو پہچانا جا سکے

    لا جرم ابصارنا لا تدرکہ

    و ہو یدرک بیں تو از موسی و کہ

    یقیناً ہماری نگاہیں اُس کا ادراک نہیں کر سکتیں

    اور وہ ادراک کر لیتا ہے، حضرت موسیٰ اور پہاڑ کے قصّہ کو دیا مکھ

    صورت از معنی چو شیر از بیشہ داں

    یا چو آواز و سخن ز اندیشہ داں

    صورت کی نسبت معنیٰ سے ایسی ہے، جیسے شیر کی نسبت کچھار سے یا جیسے بات اور آواز کی نسبت خیال سے ہے

    ایں سخن و آواز از اندیشہ خاست

    تو نہ دانی بحر اندیشہ کجاست

    یہ بات اور آواز خیال سے پیدا ہوئی

    تجھے یہ معلوم بھی نہیں کہ خیال کا سمندر کہاں ہے؟

    لیک چوں موج سخن دیدی لطیف

    بحر آں دانی کہ باشد ہم شریف

    لیکن جب تونے بات کی موج کو پاکیزہ پایا

    اُس کے سمندر کے متعلّق بھی تونے سمجھ لیا کہ وہ بھی شاندار ہوگا

    چوں ز دانش موج اندیشہ بتاخت

    از سخن و آواز او صورت بساخت

    بات سے صورت پیدا ہوئی اور پھر مر گئی

    موج اپنے آپ کو پھر سمندر میں لے گئی

    از سخن صورت بزاد و باز مرد

    موج خود را باز اندر بحر برد

    صورت ایک بے صورت سے پیدا ہوئی

    پھر لوٹ گئی کہ ہم اُسی طرف لوٹنے والے ہیں

    صورت از بے صورتے آمد بروں

    باز شد کہ انا الیہ راجعون‌‌

    پس تیرے لئے ہرلحظہ موت اور واپسی ہے

    آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلّم) نے فرمایا دنیا ایک گھڑی (وقت) ہے

    پس ترا ہر لحظہ مرگ و رجعتیست

    مصطفیٰؐ فرمود دنیا ساعتیست‌‌

    ہمارا خیال ایک تیر ہے جو اللہ کی جانب سے ہوا میں ہے

    ہوا میں کب تک ٹہرے؟ خدا کی طرف لوٹتا ہے

    فکر ما تیریست از ہو در ہوا

    در ہوا کے پاید آید تا خدا

    ہر دم دنیا نئی ہو جاتی ہے، اور ہم

    زندگی میں اُس کے نئے ہونے سے بے خبر ہیں

    ہر نفس نو می شود دنیا و ما

    بے خبر از نو شدن اندر بقا

    نہر کی طرح (تیری) عمر نئی نئی آتی رہتی ہے

    جو جسم میں لگاتا نظر آتی ہے

    عمر ہمچوں جوۓ نو نو می رسد

    مستمرے می نماید در جسد

    تیزی کی وجہ سے وہ لگاتار شکل بنی ہے

    اُس انگارے کی طرح جس کو تو ہاتھ سے تیز گھمائے

    آں ز تیزی مستمر شکل آمدست

    چوں شرر کش تیز جنبانی بہ دست

    اگر تو جلتی لکڑی کو کوشش سے گھمائے

    تو وہ بہت لمبی آگ نظر آئے گی

    شاخ آتش را بجنبانی بساز

    در نظر آتش نماید بس دراز

    ایجاد کی تیزی سے یہ بقاء کا طول

    اللہ تعالیٰ کی ایجاد کی تیزی کو ظاہر کرتا ہے

    ایں درازی مدت از تیزی صنع

    می نماید سرعت انگیزی صنع

    اِس راز کا طالب اگر کوئی علّامہ ہے

    اب حسام الدین ہے، جو متبرّک کتاب ہے

    طالب ایں سر اگر علامہ ست

    نک حسام الدیں کہ سامی نامہ ست

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے