شنیدن آں طوطی حرکت آں طوطیان و مردن آں طوطی در قفس و نوحۂ خواجہ بر وے
دلچسپ معلومات
اردو ترجمہ: سجاد حسین
شنیدن آں طوطی حرکت آں طوطیان و مردن آں طوطی در قفس و نوحۂ خواجہ بر وے
طوطی کا اس طوطی کی حرکت کو سننا اور اُس کا مرجانا اور مالک کا اُس پر رونا
چوں شنید آں مرغ کاں طوطی چہ کرد
پس بلرزید او فتاد و گشت سرد
جب اُس پرندنے سنا کہ اس طوطی نے کیا کیا
وہ بھی کپکپایا اور گرا اور ٹھنڈا ہو گیا
خواجہ چوں دیدش فتادہ ہم چنیں
بر جہید و زد کلہ را بر زمیں
مالک نے جب اُس کو اِس طرح پڑا ہوا دیکھا
تڑپ گیا اور ٹوپی زمین پر پٹخ دی
چوں بدیں رنگ و بدیں حالش بدید
خواجہ برجست و گریباں را درید
جب اُس کو اِس حالت اور اِس رنگ میں دیکھا
مالک تڑپا اور گریباں چاک کر لیا
گفت اے طوطی خوب خوش چنیں
ایں چہ بودت ایں چرا گشتی چنیں
بولا کہ اے حسین اور اچھّی پیشانی والی طوطی!
ہائے، تجھے یہ کیا ہوا، تو ایسی کیوں ہو گئی؟
اے دریغا مرغ خوش آواز من
اے دریغا ہمدم و ہم راز من
ہائے افسوس! میرے خوش اِلحان پرندے
ہائے افسوس! میرے ساتھی اور میرے ہمراز
اے دریغا مرغ خوش الحان من
راح روح و روضہ و ریحان من
ہائے افسوس! میرے خوش آِواز پرند
میری روح کی راحت اور میری جنّت
گر سلیماں را چنیں مرغے بدے
کیے خود او مشغول آں مرغاں شدے
اگر (حضرتِ) سلیمانؑ کے پاس ایسا پرند ہوتا
وہ پھر کب اُن پرندوں میں مصروف ہوتے؟
اے دریغا مرغ کارزاں یافتم
زود روۓ از روئے او بر تافتم
ہائے افسوس! پرند جس کو میں نے سستا خریدا
بہت جلد میں نے اُس کے دیدار سے مُنہ موڑ لیا
اے زباں تو بس زیانی مرمرا
چوں توئی گویا چہ گویم من ترا
اے زبان! تو سراسر میرا نقصان ہے
تو ہی چونکہ بات کرنیوالی ہے، تجھے کیا کہوں؟
اے زباں ہم آتش و ہم خرمنی
چند ایں آتش دریں خرمن زنی
اے زبان! تو آگ بھی ہے اور خرمن بھی
کب تک اِس خرمن میں تو آگ لگاتی رہے گی؟
در نہاں جاں از تو افغاں می کند
گرچہ ہر چہ گویش آں می کند
پوشیدہ طور پر جان تجھے فریاد کرتی ہے
اگر چہ تو اُس سے جو کہتی ہے وہ وہی کرتی ہے
اے زباں ہم گنج بے پایاں توئی
اے زباں ہم رنج بے درماں توئی
اے زبان! بے شمار خزانہ تو ہے
اے زبان! لا علاج مرض بھی تو ہے
ہم صفیر و خدعۂ مرغاں توئی
ہم انیس وحشت ہجراں توئی
سیٹی بجا نیوالی اور پرندوں کے لئے دھوکے کا سبب تو ہے
ہجر کی وحشت میں محبّت بھری بھی تو ہے
چند امانم می دہی اے بے اماں
اے تو ز کرده بکیں من کماں
اے بے امان! تو مجھے کب امن دیگی؟
اے کہ تونے میری دشمنی میں کمان پر چلّہ چڑھا رکھا ہے
نک بپرانیدۂ مرغ مرا
در چراگاه ستم کم کن چرا
اب تونے میرے پرند کو اڑا دیا ہے
ظُلم کی چراگاہ میں چرنا کم کردے
یا جواب من بگو یا داد دہ
یا مرا ز اسباب شادی یاد دہ
یا میرا جواب دے یا انصاف کر
یا مجھے خوشی کے اَسباب یاد دلا
اے دریغا صبح ظلمت سوز من
اے دریغا نور روز افروز من
ہائے افسوس! میرے اندھیرے کو ختم کرنیوالے نور
ہائے افسوس! میرے دن کو روشن کرنیوالی صبح
اے دریغا مرغ خوش پرواز من
ز انتہا پریده تا آغاز من
ہائے افسوس! میرے خوش پرواز پرند
انتہاء سے میری اِبتداء تک تلف ہوگیا
عاشق رنجست ناداں تا ابد
خیز لا أقسم بخواں تا فی کبد
نادان (انسان) ہمیشہ رنج کا خوگر ہے
اُٹھ، اور لاَْ اُقْسِمْ کو فی کبد تک پڑھ لے
از کبد فارغ بدم با روۓ تو
وز ز بد صافی بدم در جوئے تو
تیرے چہرہ کی وجہ سے میں رنج سے خالی ہوا
میں تیری نہر میں میل سے صاف تھا
ایں دریغاہا خیال دیدنست
وز وجود نقد خود ببریدنست
ہائے افسوس! دیدار کا خیال ہے
اپنے موجودہ وجود سے جُدا ہونا ہے
غیرت حق بود و با حق چارہ نیست
کو دلے کز عشق حق صد پارہ نیست
اللہ کی غیرت تھی اور اللہ کے سامنے چارہ نہیں ہے
کونسا دل ہے جو اللہ (تعالیٰ) کے حُکم سے سو ٹکڑے نہیں ہے؟
غیرت آں باشد کہ او غیر ہمہ ست
آں کہ افزوں از بیان و دمدمہ ست
غیرت یہ ہے کہ وہ سب سے غیر ہے
جو کہ بیان اور مکروحیلہ سے بالا تر ہے
اے دریغا اشک من دریا بدے
تا نثار دلبر زیبا بدے
ہائے افسوس! میرے آنسودریا ہوتے
تاکہ حَسین معشوق پر نثار ہوتے
طوطی من مرغ زیرک سار من
ترجمان فکرت و اسرار من
میری طوطی میرے عقلمند پرند
میرے فکر اور رازوں کے ترجمان
ہر چہ روزی داد و ناداد آیدم
او ز اول گفتہ تا یاد آیدم
اُس نے مجھے عطا کیامیں نا شکرا ثابت ہوا
پہلے وہ بولی یہانتک کہ مجھے (خدا) یاد آیا
طوطئی کاید ز وحی آواز او
پیش از آغاز وجود آغاز او
وہ طوطی (روح) جس کی آواز وحی سے ہے
وجود کی اِبتداء شے پہلے اُسکی اِبتداء ہے
اندرون تست آں طوطی نہاں
عکس او را دیدہ تو بر این و آں
وہ طوطی تیرے اندر پوشیدہ ہے
تو اِس پر اور اُس پر اُس کا عکس دیکھتا ہے
می برد شادیت را تو شاد ازو
می پذیری ظلم را چوں داد ازو
وہ (عکس) تیری خوشی برباد کر رہا ہے تو اُس سے خوش ہے
تو اُس کے ظلم کو اِنصاف کی طرح قبول کر رہا ہے
اے کہ جاں را بہر تن میسوختی
سوختی جاں را و تن افروختی
اے وہ کہ تونے جان کو جسم کے لئے جلا دیا ہے
تونے جان کو جلا دیا اور جسم کو روشن کیا
سوختم من سوختہ خواہد کسے
تا ز من آتش زند اندر خسے
میں جل چکا ہوں، کوئی جلنا چاہے
تو مجھ سے پھونس میں آگ لگا لے
سوختہ چوں قابل آتش بود
سوختہ بستاں کہ آتش کش بود
جلا ہوا آگ کے قابِل کب ہو سکتا ہے؟
ایسا جلا ہوا لے جو آگ کو قبول کرنیوالا ہو
اے دریغا اے دریغا اے دریغ
کانچناں ماہے نہاں شد زیر میغ
ہائے افسوس، ہائے افسوس، ہائے افسوس
ایسا چاند اَبر کے نیچے چھپ گیا
چوں ز نم دم کاتش دل تیز شد
شیر ہجر آشفتہ و خوں ریز شد
کیسے دم ماروں کیونکہ دل کی آگ تیز ہوگئی ہے
ہجر کا شیر غضبناک اور خونریز ہو گیا ہے
آنکہ او ہوشیار خود تندست و مست
چوں بود چوں او قدح گیرد بہ دست
وہ جو کہ ہوش کی حالت میں تنداور مست ہے
اُس کا کیا حال ہوگا جب وہ ہاتھ میں پیالہ تھام لے
شیر مستے کز صفت بروں بود
از بسیط مرغزار افزوں بود
وہ مست شیر جو اپنے آپے سے باہر ہو
وہ جنگل کے میدان سے بڑھ جاتا ہے
قافیہ اندیشم و دل دار من
گویدم مندیش جز دیدار من
میں قافیہ کی فکر میں ہوں اور میرا محبوب
مجھ سے کہتا ہے، سوائے میرے دیدار کے کچھ نہ سوچ
خوش نشیں اے قافیہ اندیش من
قافیہ دولت توئی در پیش من
اے میرے قافیہ سوچنے والے! آرام سے بیٹھ
تو میرے رو برو خوش نصیبی کے ہم معنیٰ ہے
حرف چہ بود تا تو اندیشی ازاں
حرف چہ بود خار دیوار رزاں
حرف کیا ہوتا ہے جو تو اُس کی فکر میں ہے
آواز کیا ہوتی ہے، انگور کی ٹٹی کا کانٹا
حرف و صوت و گفت را برہم زنم
تا کہ بے ایں ہر سہ با تو دم زنم
حرف اور آواز اور بولی کو میں مٹا دیتا ہوں
تاکہ اِن تینوں کے بغیر تجھسے بات کروں
آں دمے کز آدمش کردم نہاں
با تو گویم اے تو اسرار جہاں
وہ بات جو آدمؑ سے میں نے پوشیدہ رکھی
رے اَسرارِ جہاں! تجھ سے میں کہونگا
آں دمے را کہ نگفتم با خلیل
واں غمے را کہ نداند جبرئیل
وہ بات جو میں نے خلیلؑ سے نہ کہی
اور وہ بات جو جبرئیلؑ (بھی) نہیں جانتا
آں دمے کز وے مسیحا دم نزد
حق ز غیرت نیز بیمہ ہم نزد
وہ بات جو مسیحاؑ نے نہ کہی
(اور) اللہ نے غیرت کی وجہ سے (بغیر فنا حاصل کئے ہوئے سے) نہ کہی
ما چہ باشد در لغت اثبات و نفی
من نہ اثباتم منم بے ذات و نفی
(لفظِ) ما کیا ہے لغت میں اثبات اور نفی ( کے معنیٰ میں) ہے
میں اِثبات نہیں ہوں، میں بے ذات ہوں اور نفی
من کسی در نا کسی دریافتم
پس کسی در نا کسی در بافتم
میں نے ہستی فنا میں پائی
اِس لئے ہستی کو فنا میں لپیٹ دیا
جملہ شاہاں بندۂ بندہ خودند
جملہ خلقاں مردۂ مردۂ خودند
تمام بادشاہ اپنے غلام کے غلام ہیں
تمام لوگ اپنے مُردہ کے لئے مُردہ ہیں
جملہ شاہاں پست پست خویش را
جملہ خلقاں مست مست خویش را
تمام بادشاہ اپنے آگے جھکنے والے کے سامنے
اپنے عاشق کے تمام عاشق، عاشق ہوتے ہیں
می شود صیاد مرغاں را شکار
تا کند نا گاه ایشاں را شکار
شکاری، پرندوں کا شکار بنتا ہے
تاکہ اچانک اُن کا شکار کرے
دلبراں را دل اسیر بے دلاں
جملہ معشوقاں شکار عاشقاں
معشوق، عاشقوں پر دِل سے عاشق ہوتے ہیں
تمام معشوق، عاشقوں کا شکار ہوتے ہیں
مرگ عاشق دیدیش معشوق داں
کو بہ نسبت ہست ہم ایں و ہم آں
جس کو تو عاشق دیکھے، اُس کو معشوق سمجھ
کیونکہ نسبت کی وجہ سے وہ یہ بھی ہے اور وہ بھی ہے
تشنگاں گر آب جویند از جہاں
آب جوید ہم بعالم تشنگاں
اگرچہ دنیا میں پیاسے پانی تلاش کرتے ہیں
پانی بھی دنیا میں پیاسوں کو تلاش کرتا ہے
چونکہ عاشق اوست تو خاموش باش
او چو گوشت میکشد تو گوش باش
جبکہ وہ عاشق ہے، تو چپ رہ
جب اُس نے تجھے کان دئے ہیں کان (توہمہ تن) بن جا
بند کن چوں سیل سیلانی کند
ورنہ رسوائی و ویرانی کند
بند باندھ لے جب سیلاب طُغیانی پر آئے
ورنہ خرابی اور بربادی کر دے گا
من چہ غم دارم کہ ویرانی بود
زیر ویراں گنج سلطانی بود
میں کیا غم کروں کہ ویرانی ہوگی
شاہی خزانہ ویرانہ میں ہی ہوتا ہے
غرق حق خواہد کہ باشد غرق تر
ہمچو موج بحر جاں زیر و زبر
اللہ میں ڈوبا ہوا چاہتا ہے کہ زیادہ ڈوب جائے
سمندر کی موج کی طرح جان زیر وزبر ہو جائے
زیر دریا خوشتر آید یا زبر
تیر او دل کش تر آید یا سپر
دریا کے نیچے بہتر ہوگا یا دریا کے اوپر
اُس کا تیر زیادہ پسندیدہ ہوگا یا ڈھال
پارہ کردۂ وسوسہ باشی دلا
گر طرب را باز دانی از بلا
اے دل تو وسوسہ کا مارا ہوا ہوگا
اگر تونے خوشی اور مصیبت میں فرق کیا
گر مرادت را مذاق شکرست
بے مرادی نے مراد دلبرست
اگر تیری مراد میں شَکر کا ذائقہ ہے
کیا بے مُرادی محبُوب کی مُراد نہیں ہے؟
ہر ستاره ش خونبہاۓ صد ہلال
خون عالم ریختن او را حلال
اُسکا ہر ستارہ چاندوں کا خون بہا ہے
عالم کا خون بہانا اُس کے لئے درست ہے
ما بہا و خونبہا را یافتیم
جانب جاں باختن بشتافتیم
ہم نے قیمت اور خون بہا پا لیا ہے
ہم جان کی بازی ہارنے کی طرف دوڑے ہیں
اے حیات عاشقاں در مردگی
دل نیابی جز کہ در دل بردگی
اے (طالب!) عاشقوں کی زندگی مرنے میں ہے
دل گم کئے بغیر، تو دِل نہ پائے گا
من دلش جستہ بصد ناز و دلال
او بہانہ کرده با من از ملال
میں نے سونا زوانداز سے اُسکی دلجوئی کی
اُس نے ناراضی کی وجہ سے مجھ سے بہا نہ کر دیا
گفتم آخر غرق تست ایں عقل و جاں
گفت رو رو بر من ایں افسوں مخواں
میں نے کہا یہ عقل اور جان آخر تجھ میں غرق ہے
بولا۔ جا جا مجھ پر جادو نہ چلا
من ندانم آنچہ اندیشیدهٔ
اے دو دیدہ دوست را چوں دیدۂ
مجھے معلوم نہیں تو نے کیا سوچ رکھا ہے؟
اے دوئی والے تونے دوست کو کیا سمجھ رکھا ہے
اے گرانجاں خوار دیدستی و را
زانکہ بس ارزاں خریدستی مرا
اے پست ہمّت! تونے مجھے بے قدر سمجھا
اِس لئے کہ تونے مجھے سَستا خریدا ہے
ہر کہ او ارزاں خرد ارزاں دہد
گوہرے طفلے بقرصے ناں دہد
جو سَستا خریدتا ہے، سَستا دے ڈالتا ہے
ایک بچّہ موتی، ایک روٹی کی ٹکیا میں دے دیتا ہے
غرق عشقے ام کہ غرقست اندریں
عشق ہاۓ اولین و آخریں
عِشق میں ڈوب جا کہ اِس میں غرق ہیں
اگلے پچھلوں کے عشق
مجملش گفتم نکردم ز آں بیاں
ورنہ ہم افہام سوزد ہم زباں
میں نے اُس کو مجملاً بتایا، میں نے تفصیل نہیں کی
ورنہ عقلیں جل جائیں اور زبان بھی
من چو لب گویم لب دریا بود
من چو لا گویم مراد الا بود
میں جب لَبْ کہتا ہوں (مطلب) لَبِ دریا ہوتا ہے
میں جب لا کہتا ہوں تو اِلّا مراد ہوتا ہے
من ز شیرینی نشستم رو ترش
من ز پری سخن باشم خمش
میں مٹھاس سے تُرش رُو ہو کر بیٹھ جاتا ہوں
میں اپنی باتوں کی کثرت کی وجہ سے چپ ہو جاتا ہوں
تا کہ شیرینی ما از دو جہاں
در حجاب رو ترش باشد نہاں
تاکہ ہماری مٹھاس دونوں جہاں میں
تُرشروئی کے پردہ میں پوشیدہ رہے
تا کہ در ہر گوش ناید ایں سخن
یک ہمی گویم ز صد سر لدن
تاکہ ہر کان میں یہ نہ آۓ
علم لدنی کے سو رازوں میں سے ایک کہہ دیتا ہوں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.