طلب کردن امت عیسی علیہ السلام از امرا کہ ولی عہد از شما کدام است
ولی عہد بنانا وزیر کا ہر سردار کو علیحدہ علیحدہ
باد ماہے گفت خلق اے مہتران
از امیراں کیست بر جایش نشاں
تب ان امیروں کو بلایا
اور ایک ایک کر کے تنہائی میں ہر ایک سے بات کی
تا بجائے او شناسیمش امام
دست و دامن را بدست او دہیم
ہر ایک سے کہا کہ عیسوی دین میں
اللہ کا نائب اور میرا خلیفہ تو ہی ہے
چونکہ شد خورشید و ما را کرد داغ
چارہ نبود بر مقامش از چراغ
اور دوسرے امیر، تیرے تابع ہیں
حضرت عیسیٰ نے سب کو تیرا پیرو بنا دیا ہے
چونکہ شد از پیش دیدہ وصل یار
نائبے باید ازو ماں یادگار
لیکن جب تک میں زندہ ہوں یہ بات نہ کہنا
جب تک میں مر نہ جاؤں اس سرداری کی کوشش نہ کرنا
چونکہ گل بگذشت و گلشن شد خراب
بوئے گل را از کہ یابم از گلاب
جب تک میں نہ مروں یہ ظاہر نہ کرنا
بادشاہی اور غلبہ کا دعویٰ نہ کرنا
چوں خدا اندر نیاید در عیاں
نائب حق اند ایں پیغمبراں
اب یہ دفتر اور حضرت مسیحؑ کے احکام
ایک ایک کر کےصاف طور پر قوم کے سامنے پڑھ دے
نے غلط گفتم کہ نائب با منوب
گر دو پنداری قبیح آید نہ خوب
ہر امیر سے علیحدہ علیحدہ ایسا ہی کہا
کہ خدا کے دین میں تیرے سوا کوئی نائب نہیں ہے
نے دو باشد تا توئی صورت پرست
پیش او یک گشت کز صورت برست
ہر ایک کو اس نے ایک ایک کر کے معزز بنایا
جو اس سے کہا اس سے بھی کہا
چوں بہ صورت بنگری چشم تو دست
تو بنورش در نگر کز چشم رست
ہر ایک کو اس نے دفتر دے دیا
اور ہر ایک کا مقصد دوسرے کے خلاف تھا
نور ہر دو چشم نتواں فرق کرد
چونکہ در نورش نظر انداخت مرد
ان دفتروں کی عبارتیں باہم مختلف تھیں
جیسا کہ الف، با تا کے حروف
دہ چراغ ار حاضر آید در مکاں
ہر یکی باشد بہ صورت غیر آں
اس دفتر کا حکم اس دفتر کے خلاف تھا
اور اس اختلاف کو ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں
فرق نتواں کرد نور ہر یکے
چوں بنورش روۓ آری بے شکے
گر تو صد سیب و صد آبی بشمری
صد نماند یک شود چوں بفشری
در معانی قسمت و اعداد نیست
در معانی تجزیہ و افراد نیست
اتحاد یار با یاراں خوشست
پائے معنی گیر صورت سرکشست
صورت سرکش گدازاں کن بہ رنج
تا بہ بینی زیر او وحدت چو گنج
ور تو نگدازی عنایت ہاۓ او
خود گدازد اے دلم مولائے او
او نماید ہم بدلہا خویش را
او بدوزد خرقۂ درویش را
منبسط بودیم و یک جوہر ہمہ
بے سر و بے پا بدیم آں سر ہمہ
یک گہر بودیم ہم چوں آفتاب
بے گرہ بودیم و صافی ہمچو آب
چوں بہ صورت آمدآں نور سرہ
شد عدد چوں سایہ ہاۓ کنگره
کنگره ویراں کنید از منجنیق
تا رود فرق از میان ایں فریق
شرح ایں را گفتمے من از مرے
لیک ترسم تا نہ لغزد خاطرے
نکتہ ہا چوں تیغ پولادست تیز
گر نداری تو سپر واپس گریز
پیش ایں الماس بے اسپر میا
کز بریدن تیغ را نبود حیا
زیں سبب من تیغ کردم در غلاف
تا کہ کژ خوانی نخواند بر خلاف
آمدیم اندر تمامی داستاں
وز وفاداری جمع راستاں
کز پس ایں پیشوا برخاستند
بر مقامش نائبے می خواستند
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.