قصۂ باد کہ در عہد ہود علیہ السلام قوم آد را ہلاک کرد
ہوا کا ہود علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کا قصہ
ہود گرد مومناں خطے کشید
نرم می شد باد کآنجا می رسید
جو اس خط کے باہر تھا ، سب کو
ہوا اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی
ہر کہ بیروں بود زاں خط جملہ را
پارہ پارہ می شکست اندر ہوا
اسی طرح (حضرت) شیبان چرواہے ، کھینچ دیتے تھے
ریوڑ کے چاروں طرف نمایاں خط
ہم چناں شیبان راعی می کشید
گرد بر گرد رمہ خطے پدید
جب نماز کے وقت جمعہ کو جاتے
تاکہ اس جگہ بھیڑیا غارت گری نہ کرے
چوں بجمعہ می شد او وقت نماز
تا نیارد گرگ آنجا ترک تاز
اس میں کوئی بھیڑیا نہ گھستا
کوئی بکری بھی اس علامت سے باہر نہ نکلتی
ہیچ گرگے در نرفتے اندراں
گوسفندے ہم نگشتے زاں نشاں
بھیڑیے کی حرص اور بکری کی حرص کی ہوا
(اس) مرد خدا کے دائرہ میں بند تھی
باد حرص گرگ و حرص گوسفند
دایرۂ مرد خدا را بود بند
اس طرح اولیاء اللہ پر موت کی ہوا
باغ کی نسیم کی طرح نرم اور خوشگوار ہے
ہم چنیں باد اجل با عارفاں
نرم و خوش ہمچوں نسیم یوسفاں
آگ نے (حضرت) ابراہیم کو تکلیف نہیں پہونچائی
جب کہ اللہ کا برگزیدہ ہو وہ کس طرح گزند پہونچائے؟
آتش ابراہیم را دنداں نزد
چوں گزیدہ حق بود چونش گزد
دینداروں کو شہوت کی آگ نہیں جلاتی ہے
سرکشوں کو زمین کی تہہ میں لیجاتی ہے
ز آتش شہوت نزورید اہل دیں
باقیاں را برده تا قعر زمیں
دریا کی موج چونکہ خدا کے حکم سے اٹھی
موسیٰ والوں کو قبطی سے پہچان لیا
موج دریا چوں بامر حق بتاخت
اہل موسی را ز قبطی وا شناخت
قارون کی زمین کو جب حکم پہونچا
اس کو دولت اور تخت کے ساتھ اپنی گہرائی میں کھینچ لیا
خاک قاروں را چو فرماں در رسید
با زر و تختش بقعر خود کشید
مٹی اور پانی نے جب حضرت عیسیٰ کی پھونک کو چکھا
بال اور پر کھولے اور پرندہ بن گیا
آب و گل چوں از دم عیسی چرید
بال و پر بگشاد مرغے شد پرید
تیرا سبحان اللہ کہنا جو (بجائے) پانی اور مٹی کے ہے
دل کی سچائی کی پھونک سے جنت کا پرندہ بنا
ہست تسبیحت بخار آب و گل
مرغ جنت شد ز نفخ صدق دل
کوہ طور (حضرتِ) موسیٰ کے نور سے رقص میں آگیا
باکمال صوفی بن گیا اور نقص سے بری ہوگیا
کوہ طور از نور موسیٰ شد بہ رقص
صوفی کامل شد و رست او ز نقص
اے عزیز! اگر پہاڑ صوفی ہوگیا تو کیا تعجب ہے
حضرت موسیٰ کا جسم بھی تو مٹی کا ہی تھا
چہ عجب گر کوہ صوفی شد عزیز
جسم موسی از کلوخے بود نیز
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.