سوال کردن رسول روم از امیر المومنین رضی اللہ عنہ
دلچسپ معلومات
اردو ترجمہ: سجاد حسین
سوال کردن رسول روم از امیر المومنین رضی اللہ عنہ
حضرتِ عمرؓ کا قیصر روم کے ایلچی سے بات کرنا اور روم کے ایلچی کا حضرتِ عمرؓ سے سوال کرنا
مرد گفتش اے امیر المومنین
جاں ز بالا چوں بیآمد در زمیں
(اُس) شخص نے اُن سے کہا، اے امیر المومنین
روح (عالِم) بالا سے زمین پر کیوں آ گئی؟
مرغ بے اندازہ چوں شد در قفس
گفت حق بر جاں فسوں خواند و قصص
لا تعداد پرندے پنجرے میں کیسے آگئے
اُنہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے روح پر افسوں اور افسانے پڑھ دئے
بر عدمہا کآں ندارد چشم و گوش
چوں فسوں خواند ہمی آید بہ جوش
وہ معدوم جو آنکھ اور کان نہیں رکھتے
جب وہ اُن پر افسوں پڑھتا ہے وہ جوش میں آ جاتے ہیں
از فسون او عدمہا زود زود
خوش معلق می زند سوۓ وجود
اُس کے افسوں سے معدوم چیزیں جلد جلد
وجود کی جانب قلا بازیاں کھاتی ہیں
باز بر موجود افسونے چو خواند
زو دو اسبہ در عدم موجود راند
پھر جب موجود پر اُس نے افسوں پڑھا
جلد اُس کو عدم میں تیز دوڑا دیا
گفت در گوش گل و خندانش کرد
گفت با سنگ و عقیق کانش کرد
پھول کے کان میں کچھ کہا، اُس کو شگفتہ کر دیا
خوبصورت لعل سے کچھ کہا اور اُسکو چمکدار بنا دیا
گفت با جسم آیتے تا جاں شد او
گفت با خورشید تا رخشاں شد او
جسم کو کوئی آیت سنا دی، تو وہ جان بن گیا
سورج سے کہا، تو وہ چمکدار ہو گیا
باز در گوشش دہد نکتۂ مخوف
در رخ خورشید افتد صد کسوف
پھر اُس کے کان میں کوئی خوفناک نُکتہ پھونک دیا
تو سورج کے رخ میں سو گرہن آ گئ
تا بگوش ابر آں گویا چہ خواند
کو چو مشک از دیدۂ خود اشک راند
(نہ معلوم) اُس بولنے والے نے ابر کے کان میں کیا کہا ہے؟
کہ اُسے مَشک کی طرح اسی آنکھ سے پانی بہا دیا
تا بگوش خاک حق چہ خوانده است
کو مراقب گشت و خامش ماندہ است
(معلوم نہیں) زمین کے کان میں کیا پھونک دیا ہے؟
کہ وہ منتظِر اور خاموش ہو گئی ہے
در تردد ہر کہ او آشفتہ است
حق بگوش او معما گفتہ است
جو شخص تردّد میں پریشان ہے
اللہ تعالیٰ نے اس کے کان میں کوئی معما کہا ہے
تا کند محبوسش اندر دو گماں
کآں کنم کاو گفت یا خود ضد آں
تاکہ اُس کو دو گمانوں میں مبتلا کر دے
وہ کروں جو (فلاں نے ) کہایا اُس کی ضد
ہم ز حق ترجیح یابد یک طرف
زاں دو یک را بر گزیند زاں کنف
پھر اللہ (تعالیٰ) کی طرف سے ایک جانب کا رجحان
اُس طرف سے دونوں میں سے ایک کو اختیار کرتا ہے
گر نخواہی در تردد ہوش جاں
کم فشار ایں پنبہ اندر گوش جاں
اگر تو جان کے ہوش کو تردّد میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا ہے
اِس روئی کو جان کے کان میں نہ ٹھونس
تا کنی فہم آں معماہاش را
تا کنی ادراک رمز و فاش را
تاکہ تو اُس کے اِن معمّوں کو سمجھ لے
تاکہ تو واضح بات اور اشاروں کا اِدراک کر سکے
پس محل وحی گردد گوش جاں
وحی چہ بود گفتنی از حس نہاں
پھر جان کا کان وحی کی جگہ بن جاتا ہے
وحی کیا ہوتی ہے؟ پوشیدہ حس کی گفتگو ہے
گوش جان و چشم جاں جز ایں حس است
گوش عقل و گوش ظن زیں مفلس است
جان کے کان اور آنکھ اِس حس کے علاوہ ہیں
عقل کا کان اور گمان کی آنکھ اُس سے خالی ہے
لفظ جبرم عشق را بے صبر کرد
وانکہ عاشق نیست حبس جبر کرد
جبر کے لفظ نے میرے عشق کو بے قار کردیا
جو عاشق نہیں ہے اُسکو جبر کا قیدی بنا دیا
ایں معیت با حق است و جبر نیست
ایں تجلی مہ است ایں ابر نیست
یہ اللہ (تعالیٰ) کے ساتھ معیّت ہے اور جبر نہیں ہے
خود غرض (نفسِ) امارّہ کا جبر نہیں ہے
ور بود ایں جبر جبر عامہ نیست
جبر آں امارۂ خود کامہ نیست
اگر یہ جبر ہے تو عوام کا جبر نہیں ہے
خود غرض (نفسِ) امارّہ کا جبر نہیں ہے
جبر را ایشاں شناسند اے پسر
کہ خدا بگشاد شاں در دل بصر
اے بیٹا! جبر کو وہی پہچانتے ہیں
جن کے دل کی آنکھ خدانے کھول دی ہے
غیب آینده بر ایشاں گشت فاش
ذکر ماضی پیش ایشاں گشت لاش
غیب اور آنیوالی چیزیں اُن پر مُنکشف ہو گئی
گذشتہ کی یاد تو اُن کے لئے کچھ بھی نہیں
اختیار و جبر ایشاں دیگر است
قطره ہا اندر صدفہا گوہر است
اُن کا اختیار اور جبر دوسرا ہی ہے
صدفوں میں قطرے گوہر ہیں
ہست بیروں قطرۂ خرد و بزرگ
در صدف آں در خورد ست و سترگ
باہر وہ چھوٹے اور بڑے قطرے ہیں
لیکن صدف میں وہ چھوٹے اور بڑے موتی ہیں
طبع ناف آہوست آں قوم را
از برون خوں و دروں شاں مشک ہا
اس قوم کی طبیعت ہرن کا نافہ ہے
باہر خون ہے اور ان کے اندر مُشک ہے
تو مگو کیں مایہ بیروں خوں بود
چوں رود در ناف مشکے چوں شود
تونہ کہہ کہ یہ نافہ باہر خون ہوتا ہے
جب ناف میں جاتا ہے مُشک کیوں بن جاتا ہے
تو مگو کیں مس بروں بد محتقر
در دل اکسیر چوں گیرد گہر
تو نہ کہہ کہ یہ تانبا باہر نا چیز تھا
اکسیر کے دل میں پہنچکر سونا کیسے بن گیا؟
اختیار و جبر در تو بد خیال
چوں دریشاں رفت شد نور جلال
اِختیار اور جبر تجھ میں ایک خیال تھا
جب اُن میں پہنچا تو نورِ جلال بن گیا
نان چو در سفرہ ست باشد آں جماد
در تن مردم شود او روح شاد
روٹی جب تک دسترخوان میں ہے وہ بے روح ہے
انسان کے جسم میں پہونچ کر وہ بَشّاش روح بن جاتی ہے
در دل سفرہ نگردد مستحیل
مستحیلش جاں کند از سلسبیل
دسترخوان میں وہ متغیرّ نہیں ہوتی ہے
روح اُس کو سلسبیل کے ذریعہ متغیّر کرتی ہے
قوت جانست ایں اے راست خواں
تا چہ باشد قوت آں جان جاں
اے سچی بات پڑھنے والے! یہ روح کی طاقت ہے
تو روح کی روح کی کیا طاقت ہوگی؟
گوشت پارۂ آدمی با عقل و جاں
می شگافد کوہ را با بحر و کاں
آدمی جو گوشت کا ٹکڑا ہے، جان کے زور سے
پہاڑ کو مع سمندر اور کان کے پھاڑ دیتا ہے
زور جان کوہکن شق الحجر
زور جان جاں در انشق القمر
کوہکن کی جان کے زدرنے پتّھر پھاڑا
جان کی جان کا زور اِنشق الْقَمَر میں ہے
گر گشاید دل سر انبان راز
جاں بسوۓ عرش آرد ترک تاز
اگر دل راز کے تھیلے کا مُنہ کھول دے
جان عرش کی جانب دوڑ جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.