طلب کردن امت عیسی علیہ السلام از امرا کہ ولی عہد از شما کدام است
حضرت عیسی کی امت کا معلوم کرنا کہ تم میں سے ولی عہد کون
ہے
باد ماہے گفت خلق اے مہتران
از امیراں کیست بر جایش نشاں
ایک مہینہ کے بعد لوگوں نے کہا اے بزرگو!
سرداروں میں سے اس کا قائم مقام کون ہے
تا بجائے او شناسیمش امام
دست و دامن را بدست او دہیم
تا کہ اس کی جگہ ہم اس کو امام سمجھیں
تاکہ ہمارا کام اس کے ذریعہ مکمل ہو
چونکہ شد خورشید و ما را کرد داغ
چارہ نبود بر مقامش از چراغ
جب کہ سورج غروب ہوگیا اور ہمیں داغ دے گیا
تو اس کی جگہ چراغ ضروری ہوگیا ہے
چونکہ شد از پیش دیدہ وصل یار
نائبے باید ازو ماں یادگار
جب دوست کا چہرہ آنکھوں سے غائب ہو گیا
(تو) ہمیں (اس) کا قائم مقام اس کی یادگار چاہئے
چونکہ گل بگذشت و گلشن شد خراب
بوئے گل را از کہ یابم از گلاب
جب فصل گل ختم ہوگئی اور چمن تباہ ہو گیا
تو پھول کی خوشبو کس سے طلب کریں ، گلاب سے
چوں خدا اندر نیاید در عیاں
نائب حق اند ایں پیغمبراں
چونکہ خدا مشاہدہ میں نہیں آتا ہے
یہ پیغمبر اللہ کے قائم مقام ہیں
نے غلط گفتم کہ نائب با منوب
گر دو پنداری قبیح آید نہ خوب
نہیں میں نے نائب غلط کہا بلکہ وہ اصل ہیں
اور اگر ان کو دو سمجھو گے تو برا ہوگا ، اچھا نہ ہوگا
نے دو باشد تا توئی صورت پرست
پیش او یک گشت کز صورت برست
نہیں وہ دو ہیں جب تک تو ظاہر پرست ہے
جو ظاہری بینی سے گذرا اس کے لئے ایک ہیں
چوں بہ صورت بنگری چشم تو دست
تو بنورش در نگر کز چشم رست
جب تو بظاہر دیکھے گا تو تیری دو آنکھیں ہیں
تو ان کے اس نور کو دیکھ کہ وہ ایک ہی ہے
نور ہر دو چشم نتواں فرق کرد
چونکہ در نورش نظر انداخت مرد
دونوں آنکھوں کی روشنی میں فرق نہیں کیا جا سکتا
جب انسان اس کئے نور پر نظر ڈالے
دہ چراغ ار حاضر آید در مکاں
ہر یکی باشد بہ صورت غیر آں
اگر تو دس چراغ ایک جگہ لے آئے
تو ہر ایک چراغ صورت میں دوسرے سے جدا ہوگا
فرق نتواں کرد نور ہر یکے
چوں بنورش روۓ آری بے شکے
ہر ایک کے نور میں فرق نہیں کیا جا سکے گا
بیشک جب تو اس کے نور کی طرف رخ کرے گا
گر تو صد سیب و صد آبی بشمری
صد نماند یک شود چوں بفشری
اگر تو سو سیب اور سو بھی گنے
تو سو نظر آئیں گے لیکن جب ان کو نچوڑے گا تو ایک ہو جائیں گے
در معانی قسمت و اعداد نیست
در معانی تجزیہ و افراد نیست
معانی میں تقسیم اور عدد نہیں ہے
تجزیہ اور اکائیاں ( بھی) معانی میں نہیں ہیں
اتحاد یار با یاراں خوشست
پائے معنی گیر صورت سرکشست
یار کا یاروں سے اتحاد بہتر ہے
معنی کا اتباع کر ، ظاہر تو سرکش ہے
صورت سرکش گدازاں کن بہ رنج
تا بہ بینی زیر او وحدت چو گنج
سرکش ظاہر کو ریاضت سے پگھلا دے
تا کہ تو اس کے نیچے خزانہ کی طرح وحدت کو دیکھ لے
ور تو نگدازی عنایت ہاۓ او
خود گدازد اے دلم مولائے او
اور اگر تو نہ پگھلا سکے تو اس کی مہربانیاں
بھی پگھلا دیں گی اے (مخاطب) میرا دل اس کا غلام ہے
او نماید ہم بدلہا خویش را
او بدوزد خرقۂ درویش را
وہ اپنے آپ کو دلوں میں بھی ظاہر کر دیتا ہے
اور وہ درویش کی گدڑی سی دیتا ہے
منبسط بودیم و یک جوہر ہمہ
بے سر و بے پا بدیم آں سر ہمہ
ہم بسیط اور بالکل ایک جوہر تھے
ہم بے سرو پا تھے اور وہ ہم سب کا سردار و مربی تھا
یک گہر بودیم ہم چوں آفتاب
بے گرہ بودیم و صافی ہمچو آب
ہم سورج کی طرح ایک جوہر تھے
ہم میں گدلا پن نہ تھا اورپانی کی طرح صاف تھے
چوں بہ صورت آمدآں نور سرہ
شد عدد چوں سایہ ہاۓ کنگره
جب اس خالص نور نے صورت اختیار کی
تو وہ کنگرہ کے سایوں کی طرح متعدد بن گیا
کنگره ویراں کنید از منجنیق
تا رود فرق از میان ایں فریق
گوپھن کے ذریعہ کنگرہ کو ڈھا دو
تاکہ اس فریق سے فرق مٹ جائے
شرح ایں را گفتمے من از مرے
لیک ترسم تا نہ لغزد خاطرے
اس راز کی تفصیل میں زور و شور سے بیان کرتا
لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں کوئی دل لغزش نہ کھا جائے
نکتہ ہا چوں تیغ پولادست تیز
گر نداری تو سپر واپس گریز
نکتے ، تیز تلوار کی طرح تیز ہیں
اگر تیرے پاس ڈھال نہیں ہے واپس بھاگ جا
پیش ایں الماس بے اسپر میا
کز بریدن تیغ را نبود حیا
اس تیز تلوار کے سامنے سپر کے بغیر مت آ
اس لئے کہ تلوار، کاٹنے سے نہیں شرماتی
زیں سبب من تیغ کردم در غلاف
تا کہ کژ خوانی نخواند بر خلاف
اسی وجہ سے میں نے تلوار ، غلاف میں کر لی ہے
تاکہ کوئی الٹا پڑھنے والا ، الٹا نہ پڑھے
آمدیم اندر تمامی داستاں
وز وفاداری جمع راستاں
ہم قصہ کے اختتام پر آ گئے
دوستوں کے مجمع کی وفاداری کی وجہ سے
کز پس ایں پیشوا برخاستند
بر مقامش نائبے می خواستند
کہ وہ جو اس پیشوا کے بعد اٹھے
اس کی جگہ کوئی قائم مقام چاہتے تھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.