آگے تو عزیز اس سے نہ تھے لعل و گہر بھی
دلچسپ معلومات
بر غزل محمد رفیع سودا
آگے تو عزیز اس سے نہ تھے لعل و گہر بھی
اخلاص کیا دل سے تو کیا سیدھی نظر بھی
تجھ سے متوقع ہے ترا دست نگر بھی
گل پھینکے ہے اوروں کی طرف اور ثمر بھی
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی
یہ جو کہے کوئی اسے ہے خواہش زر نہ
یا یہ کہ وہ رکھتا ہے کسی بات کا ڈر نہ
واللہ غلط جھوٹ ہے تہمت کسی پر نہ
کیا ضد ہے خدا جانے مجھ ساتھ دگر نہ
کافی ہے تسلی کو مرے ایک نظر بھی
ہم چشمی کا مقدر ہے یاں دم کوئی مارے
ہے شمع تو فانوس میں روپوش کنارے
مغرور ہے کس بات پر ہم بھی سنیں پیارے
اے ابر قسم ہے تجھے رونے کی ہمارے
تجھ چشم سے ٹپکا ہے کبھی لخت جگر بھی
امید نہیں اب تو خدا ہی اسے پھیرے
وہ دن گئے تھے روز ادھر چند دنوں پھیرے
کیوں کر نہ زباں زد ہو شب و روز یہ میرے
اے نالہ صد افسوس جواں مرنے پہ تیرے
پایا نہ تنک دیکھنے میں اور اثر بھی
ہر چند نہیں مجھ کو کسی ساتھ سروکار
میں آپ سراپا ہوں گناہوں میں گرفتار
پر تیرے بھلے کی کہوں ہوں دیکھ خبردار
کسی ہستیٔ موہوم پہ نازاں ہے تو اے یار
کبھی اپنی شب و روز کی ہے تجھ کو خبر بھی
جوں غنچہ اگرچہ نظر آوے کوئی خاموش
ممکن نہیں ہو دل سے تری یاد فراموش
کس کس کی خبر دوں تجھے احول کے مئے نوش
تنہا نہیں ہے غم سے تری شام سیہ پوش
رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی
فدویؔ سے تو سن اپنی کہے جو تجھے کچھ بات
ہمسایہ پکارے ہے کدھر جائے ہے ہیہات
شوریدگی اچھی نہیں یہ کون ہے اوقات
سوداؔ تری فریاد سے آنکھوں میں کٹی رات
آئی ہے سحر ہونے کو ٹک تو کہیں مر بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.