وہی جلوہ کسی کو ہوگئی تھی جس سے حیرانی
وہی جلوہ کسی کو ہوگئی تھی جس سے حیرانی
وہی جلوہ کہ دیکھ آیا کوئی جس کو بآسانی
وہی جلوہ کہ ہے دونوں جہاں میں جس کی تابانی
وہی جلوہ یہاں بھی کر رہا ہے نور افشانی
شریکِ بزمِ اقدس ہو کے کر لو قلب نورانی
ہم اس کے ہیں کہ جس کی ہے سراپا ذات نورانی
ہم اس کے ہیں کہ جس کا ہے لقب محبوبِ یزدانی
ہم اس کے ہیں نہیں کونین میں جس کا کوئی ثانی
ہم اس کے ہیں کہ جس نے آل کی کی ہم پہ قربانی
ہمارے سامنے نارِ جہنم کیوں نہ ہو پانی
مجھے درکار ہے کب ہے جہانبانی و سلطانی
تماشا ہے فسوں ہے کھیل ہے یہ بزمِ امکانی
مرے نزدیک یہ ارض و سما ہیں سب کے سب فانی
نہ لوں گا میں اگر مجھ کو ملے گا باغِ رضوانی
جو ہاتھ آئے قسمت سے ترے روضہ کی دربانی
کچھ اس درجہ ہوئی ہے آج کل غم کی فروانی
کچھ اس درجہ ترقی پر ہےان روزوں پریشانی
کچھ اس درجہ ہوا ہے چرخ میرا دشمنِ جانی
مرے گھر رات دن رنج و الم کی اب ہے مہمانی
خبر لیجئے خدا را آکے اب محبوبِ یزدانی
بتاؤں کیا کہ ہو بحرالم میں کیسی طغیانی
مرے سر سے بہت ہی اب تو اونچا ہوگیا پانی
سمجھتا ہوں کہ میری جان تو اس غم میں ہے جانی
مگر اتنی تمنا ہے مری اسلام کے بانی
دمِ آخر جھکے تیرے ہی در پر میری پیشانی
مجھے پروا نہیں گر بحرِ عصیاں میں ہے طغیانی
پہنچ جائے گی ساحل پر مری کشتی بآسانی
وہ عاصی ہوں کہ جس کی رحمتِ حق خود ہے دیوانی
گناہوں سے نہیں محشر میں کچھ مجھ کو پشیمانی
مرا جب کام ہے ناظمؔ محمد کی ثنا خوانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.