بیخودی میں داستانِ غم سنا دیتا ہوں میں
بیخودی میں داستانِ غم سنا دیتا ہوں میں
شور نالوں سے قیامت کا مچا دیتا ہوں میں
چرخ کیا ہے عرش تک کو بھی ہلا دیتا ہوں میں
ہر بشر کو خون کے آنسو رلا دیتا ہوں میں
بیٹھے بیٹھے فتنۂ محشر جگا دیتا ہوں میں
رحم کر اے بدگمانی کچھ تو آخر رحم کر
گر نہ جائے یاس کی بجلی میری امید پر
بڑھ گیا ہے اشتیاق دیدِ جاناں اس قدر
جب سنا دیتا ہے کوئی ان کے آنے کی خبر
رہ گذر میں دیدۂ حسرت بچھا دیتا ہوں میں
ہے شبِ تاریکِ ہجراں اور نگاہیں بیقرار
دم لبوں پر آگیا ہے دل ہے وقفِ انتظار
اے مسیحا رحم کے قابل ہے میرا حالِ زار
تو جفا کرتا ہے میں کرتا ہوں جان و دل نثار
دیکھ ظالم ظلم کے بدلے بھی کیا دیتا ہوں میں
ہم تو جاتے ہیں بلا سے کچھ بھی ہو سود و زیاں
اب خزاں آئے چمن میں یا بہارِ بے خزاں
یاسِ خود داری نے آخر کر دیا بے خانماں
کیا بگاڑے گی میرا اب گر کے برقِ نا گہاں
آشیاں پہلے ہی اے عاقلؔ جلا دیتا ہوں میں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.