یہ حرص_و_ہوس کی منڈی ہے انمول رتن بک جاتے ہیں
یہ حرص و ہوس کی منڈی ہے انمول رتن بک جاتے ہیں
محلوں کے پرخچے اڑتے ہیں دھنوان کے دھن بک جاتے ہیں
دولت کی طرح توبہ توبہ احباب وطن بک جاتے ہیں
بازار عجب بازار ہے یہ رنگین چمن بک جاتے ہیں
رنگین چمن کا ذکر ہی کیا مردوں کے کفن بک جاتے ہیں
تعویذ میں قرآں بکتا ہے منتر بھی خریدہ جاتا ہے
نیلام وظیفے ہوتے ہیں گوہر بھی خریدہ جاتا ہے
مٹی بھی خریدی جاتی ہے پتھر بھی خریدہ جاتا ہے
مسجد کا بھی سودا ہوتا ہے مندر بھی خریدا جاتا ہے
ملاؤں کے سجدہ بکتے ہیں پنڈت کے بھجن بک جاتے ہیں
کیا سوچ رہے ہو اہل جگر ہر چیز کا سودا ہوتا ہے
دو دن کا تماشہ ہے یہ مگر ہر چیز کا سودا ہوتا ہے
ڈالو تو ذرا دنیا پہ نظر ہر چیز کا سودا ہوتا ہے
جو چاہو خریدو آؤ ادھر ہر چیز کا سودا ہوتا ہے
بکتی ہیں سہاگ کی راتیں بھی دلہن کے چلن بک جاتے ہیں
توبہ یہ زمانہ کیسا ہے ہر بات پہ نازاںؔ پیسہ ہے
محفوظ رہے ایماں اپنا ماحول زمانہ بدلہ ہے
زر لے کے خودداری بیچی کیا خوب یہ سودا سستا ہے
شعرا نے ضمیر اپنا بیچا لفظوں کا خزانہ بیچا ہے
چاندی کے چمکتے سکوں پر ارباب سخن بک جاتے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.