Font by Mehr Nastaliq Web
Sufinama

انسان

رہین بے کسی آلودۂ ادبار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

پریشاں حال دیکھا ہے کبھی بے کار دیکھا ہے

بہر ساعت کبھی وقف غم و آزار دیکھا ہے

کبھی مجبور دیکھا ہے کبھی لاچار دیکھا ہے

وفور غم میں مرنے کے لیے تیار دیکھا ہے

رہین بے کسی آلودۂ ادبار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

جنون عشق میں درد و الم میں جوش وحشت میں

شب فرقت کے سناٹوں میں یا شام مصیبت میں

محبت کی گھٹن راہوں میں حیرانی کی صورت میں

بتاؤ تو ذرا پہلے کسی دور حکومت میں

پریشاں حال دل آزار دل افگار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

کبھی پہلے بھی اتنی عام تھی کیا چور بازاری

ہوا کرتی تھی ہر محفل میں کیا پہلے بھی عیاری

کبھی پہلے بھی لا تعداد تھے رشوت کے بیوپاری

سر بازار ہوتی تھی کبھی پہلے بھی بد کاری

بتاؤ تم نے دنیا کو کبھی بد کار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

بہر عالم کسی کو شکوۂ بے روزگاری ہے

بہر لحظہ کوئی اپنے مقدر ہی کا شاکی ہے

بہ مجبوری کسی نے عزت و ناموس بیچی ہے

کسی نے بھوک کی شدت میں اپنی جان دے دی ہے

خدا شاہد کہ میں نے یہ بھی حال زار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

کوئی اب اشک برساتا ہے اور کوئی غزل خواں ہے

کوئی حرماں بداماں ہے کوئی راحت بداماں ہے

کوئی جینے کا خواہاں ہے کوئی جینے سے نالاں ہے

کوئی ہر وقت شاداں ہے کوئی ہر دم پریشاں ہے

زمانے کو کبھی اتنا بھی ناہنجار دیکھا ہے

کبھی انسان کو اتنا ذلیل و خوار دیکھا ہے

مأخذ :
  • کتاب : کلیات عزیز (Pg. 129)
  • Author : عزیز وارثی
  • مطبع : مرکزی پنٹرز، چوڑی والان، دہلی (1993)

Additional information available

Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

OKAY

About this sher

Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

Close

rare Unpublished content

This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

OKAY
بولیے