مدارائے ہوس
کئے جا جو ترا جی چاہے میرا کیا ہے دنیا میں
مجھے جانا ہے دنیا سے تجھے رہنا ہے دنیا میں
حقیقت کا میں جویا اور تو منکر حقیقت کا
جو خود دشمن ہو اپنا اس سے کیا موقع شکایت کا
جو پابند ہوس ہو راز کیا سمجھے محبت کا
ہے قید جسم سے معیار بالا اپنی الفت کا
تری حد نظر شاہد فروشی کی دکاں تک ہے
مری پرواز کی وسعت مکاں سے لا مکاں تک ہے
میں ہوں پردے کے اندر اور تو پردے کو تکتا ہے
ہے لیلیٰ میرا مقصد اور تجھے محمل پہ سکتا ہے
جو شاہد ہیں زمانے کے مری عصمت کے شاہد ہیں
جو مسجود زمانہ ہیں وہ میرے در پہ ساجد ہیں
ستاروں تک نظر تیری میں خود خورشید خاور ہوں
اگر تیرے برابر ہوں تو کافر کے برابر ہوں
مری بد نامیوں میں ہیں مری آزادیاں پنہاں
مری ناکامیوں میں ہیں مری خودداریاں پنہاں
تری معراج بد گوئی مری تمکین خاموشی
ہے تیرا افترا شیوہ مری عادت خطا پوشی
علاج اپنی برائی کا سمجھتا ہے تو بد گوئی
بھلا تو کب ہوا گر ہو گیا ثابت برا کوئی
تیرے فقرے ہوئے باد شتر بازار طفلاں میں
تجلی بن کے اتری نظم میکشؔ قلب پاکاں میں
- کتاب : میکدہ (Pg. 12)
- Author : میکشؔ اکبرآبادی
- مطبع : آگرہ اخبار، آگرہ (1931)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.