"سپاہی کی زندگی":سپاہی سے قائم نظام جہاں ہے
سپاہی سے قائم نظام جہاں ہے
یہی ملک وملت کا اک پاسباں ہے
یہی حافظ دور امن واماں ہے
اسی کا ہر اک سمت سکہ رواں ہے
زمانہ یہی دے رہا ہے گواہی
سپاہی کے قدموں میں ہے تاج شاہی
کبھی نور بن کر یہ زنداں میں پہنچا
کبھی حق کی خاطر بیاباں میں پہنچا
کبھی موج کی طرح طوفاں میں پہنچا
کبھی رنگ وبو بن کے بستاں میں پہنچا
اسی کے لہو سے بہارِ چمن ہے
حقیقت میں یہ شمع بزم وطن ہے
ہے کام اس کا گرتے ہوؤں کو اٹھانا
اجل کی نگاہوں سے آنکھیں لڑانا
سرِ دار بھی نغمۂ حق سنانا
زمانے سے باطل کے فتنے مٹانا
کبھی آسماں کو یہ سر پر اٹھالے
کبھی سینۂ بحرو بر چیر ڈالے
یہ سینے سے نوک سناں موڑتا ہے
یہ ہاتھوں سے بم آتشیں چھوڑتا ہے
یہ ٹھوکر سے کوہِ گراں توڑتا ہے
شکستہ دلوں کو مگر جوڑتا ہے
لگاتا ہے یہ آگ پانی کے اندر
اجل اس کے سایہ سے چلتی ہے بچ کر
یہ بے موت مرنے کا قائل نہیں ہے
غم بزدلی کا یہ بسمل نہیں ہے
یہ ہے بحر مواج ساحل نہیں ہے
جہاں میں کہاں اس کی منزل نہیں ہے
یہی ہے زمانے کا روشن ستارہ
وطن اس کو پیارا وطن کا یہ پیارا
اٹھ اے قوم خود کو سپاہی بنا دے
جہاں سے نشان ستم گرمٹا دے
وطن کے ستارے کو پھر جگمگادے
پھر اب تیغ ہندی کے جوہر دکھادے
ہر اک ظلم کا قصر برباد کردے
غلامی سے دنیا کو آزاد کردے
- کتاب : تذکرہ شعرائے اتر پردیش جلد دسویں (Pg. 220)
- Author : عرفان عباسی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.