چندا جھلکے یہی گھٹمانی اندھی آنکھن سوجھے ناہیں
چندا جھلکے یہی گھٹمانی اندھی آنکھن سوجھے ناہیں
یہی گھٹ چندا یدی گھٹ سور یہی گھٹ گرجئے انہد تور
یہی گھٹ باجئے طبل نسان بہرا سبد سنئے نہی کان
جب لگ میری میری کری تب لگ کاج ایکو نہی سرئے
جب میری ممتا مر جائے تب پربھو کاج سنچارے آے
جب لگی سگھ رہے بن ماں ہی تب لگی وہ بن پھولے ناہی
الٹ سیار سیہ کو کھاے تب وہ بن پھولے ہریائے
گیان کے کارن پھولے بنرائے پھل لگے پر پھولے سکھائے
مریگا پاس کستوری باس آپ نہ کھوجے کھوجے گھاس
اس گھٹ (وجود) میں چاند جھلکتا ہے لیکن اندھی آنکھوں کو دکھائی نہیں دیتا، اسی گھٹ میں چاند ہے اور اسی گھٹ میں سورج اور اسی گھٹ میں ابدیت کا ساز چھڑا ہوا ہے۔ اس گھٹ میں نقارے بج رہے ہیں لیکن بہرے کانوں کو کچھ سنائی نہیں دیتا، جب تک آدمی میری میری کرتا رہتا ہے کوئی کام نہیں بنتا، جب ممتا مر جاتی ہے تب پربھو آکر کام سنوارتے ہیں، عمل کا مقصد صرف علم (عرفان) ہے لیکن جب علم (عرفان) آ جاتا ہے تو عمل بیکار ہو جاتا ہے، جیسے پھول پھل پیدا کرنے کے لیے کھلتا ہے، پھل آنے کے بعد پھول مرجھا جاتا ہے، مشک خود ہرن کے نافے میں ہوتا ہے (جس کی خوشبو اسے بے قرار رکھتی ہے) لیکن وہ اس کو اپنے جسم کے بجائے گھاس میں تلاش کرتا ہے۔
(ترجمہ: سردار جعفری)
- کتاب : کبیر سمگر (Pg. 766)
- Author : کبیر
- مطبع : ہندی پرچارک پبلیکیشن پرائیویٹ لیمیٹید، وارانسی (2001)
- اشاعت : 5th
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.