جس سے رہنی اپار جگت میں سو پریتم مجھے پیارا ہو
جس سے رہنی اپار جگت میں سو پریتم مجھے پیارا ہو
جیسے پُرَئِنی رہی جل بھیتر جل ہی میں کرت پسارا ہو
وا کے پانی پتر نہ لاگے ڈھرکی چلے جس پارا ہو
جیسے ستی چڑھئے اگنی پر پریم بچن نا ٹارا ہو
آپ جرے اورَنی کو جارے رکھے پریم مرجادا ہو
بَھو ساگر اک ندی اگم ہے احد اگاہ دھارا ہو
کہے کبیرؔ سنو بھائی سادھو برلے اُترے پارا ہو
مجھے وہ پریتم پیارا ہے جو اس جگت میں مجھے ہم کنار کر کے بے کنار بنا دے۔ جیسے کنول کا پتّا پانی میں رہتا ہے، پانی میں اپنی ہتھیلی پھیلاتا ہے۔ لیکن پانی اسے بھگو نہیں سکتا اور پارے کی طرح ڈھلک جاتا ہے۔ (اسی طرح میں سنسار میں رہ کر سنسار کے موہ میں نہیں مبتلا ہوتا) جیسے ستی محبت کے عہد و پیمان کو نہیں توڑتی اور آگ میں کود جاتی ہے۔ خود جلتی ہے اوروں کو جلاتی ہے۔ (غمناک کرتی ہے) لیکن عشق کی لاج رکھ لیتی ہے۔(میں سنسار کی آگ میں جلتا ہوں) دنیا کا سمندر بہت گہرا اور بیکراں ہے۔ سنو بھائی سادھو کبیرؔ کہتے ہیں کہ کم ہی لوگ اسے پار کر کے دوسرے ساحل تک پہنچ سکتے ہیں۔
(ترجمہ: سردار جعفری)
- کتاب : کبیر سمگر (Pg. 764)
- Author :کبیر
- مطبع : ہندی پرچارک پبلیکیشن پرائیویٹ لیمیٹید، وارانسی (2001)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.