اے کاشکی بہ عالم، تا چشم کار می کرد
اے کاشکی بہ عالم، تا چشم کار می کرد
دل بود و آدم آں را قربان یار می کرد
اے کاش اس عالم میں، جہاں تک نگاہ جاتی،
ایک دل ہوتا اور لوگ اس دل کو یار پر قربان کرتے۔
زیں خوبتر چہ میشد گر ہر نفس، بہ جاناں
یک جان تازہ میشد عاشق نثار می کرد
اس سے بہتر کیا ہوتا اگر ہر سانس کے ساتھ،محبوب کے لۓ
ایک نئ جان عاشق محبوب پر نثار کرتا۔
دل را ببین کہ نگر یخت از حملہ ای کہ آں چشم
بر شیر اگر کہ می برد، بی شک فرار می کرد
دل کو دیکھو کہ کیسے اس آنکھ کے ایک حملے سے پگھل گیا،
اگر وہ حملہ شیر پر ہوتا تو بے شک وہ بھی فرار کر جاتا۔
جاں را بہ زلف جاناں از دست من بدر برد
دلبر اگر نمی شد ایں دل چہ کار می کرد؟
جان کو محبوب کی زلفوں نے مجھ سے چھین لیا،
اگر وہ محبوب نہ ہوتا تو یہ دل کیا کرتا؟
گر مرغ دل ز جاناں دزدید می چہ بودی
تا شاہباز چشمش از نو شکار می کرد
اگر دل کا پرندہ محبوب سے فرار کرتا تو کیا ہوتا؟
اس کی آنکھ کا شاہین پھر سے شکار کر لیتا۔
شورای دولت عشق فاتح اگر نمی شد
جمہوری دلم را غم تار و مار می کرد
اگر عشق کی سلطنت کی شوریٰ فتح مند نہ ہوتی،
غم میری دل کی جمہوریت کو برباد کر دیتا۔
دلبر اگر دلم را میخواند بندہ ہر چند
آزادی است دینم، دل افتخار می کرد
اگر محبوب میرا دل پکار بھی لیتا، ہر چند بندہ،
میرا دین آزادی ہے اور دل اس پر فخر کرتا۔
باران دیدہ من درفصل دوری او
صحرای سینہ ام را چوں لالہ زار می کرد
میری آنکھوں کی بارش، اس کی جدائی کے موسم میں،
میرے سینے کے صحرا کو لالہ زار بنا دیتی۔
- کتاب : Surood-e-Haai-Aazadi-o-Sulah (Pg. 327)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.