اگرچہ بے خود و مستم ولے ہشیار می گردم
اگرچہ بے خود و مستم ولے ہشیار می گردم
بہ باطن شاہ کونینم بہ ظاہر خوار می گردم
اگر چہ میں مست و بیخود ہوں لیکن ہوشیار کی طرح بھٹک رہا ہوں
باطن میں شاہ کونین ہوں لیکن بظاہر خوار و رسوا بھٹک رہا ہوں
مرا ربطیست با جاناں چو نور خور بہ قرص آں
بہ صورت زو جدائیم گرچہ سایہ وار می گردم
محبوب سے میرا اسی طرح تعلق ہے جس طرح سورج کا اس کے قرص سے ہوتا ہے
بظاہر میں اس سے جدا ہوں لیکن میں سایہ کی طرح بھٹک رہا ہوں
چو دیدم روئے خوبش را بہ ہر جائے بہ ہر رنگے
از ایں در بحر و بر و کوچہ و بازار می گردم
میں نے اس کے حسین چہرے کو ہر جگہ اور ہر رنگ میں دیکھا ہے
اسی سبب میں بحر و بر اور کوچہ و بازار میں بھٹک رہا ہوں
عجب بے خویش و بد مستم کہ طرفہ ماجرا ایں است
کہ دل دارے بہ بر دارم پئے دل دار می گردم
میں عجب مست و بیخود ہوں، یہ کیسا ماجرا ہے
کہ دلدار میرا قریب ہے اور میں دلدار کے لیے بھٹک رہا ہوں
شراب شوق عالم را تو می طلبی و می بخشی
مگر محروم گرد خانۂ خمار می گردم
تو پوری دنیا کو شرابِ عشق پلا رہا ہے اور دنیا سے طلب بھی کر رہا ہے لیکن میں اس سے محروم خمار کے گھر کے گرد بھٹک رہا ہوں
بیا نور محمدؐ کن دل امدادؔ را روشن
کہ عکس نور بے کیفم پئے انوار می گردم
آؤ اور نور محمد سے امدادؔ کے دل کو روشن کر دو کیوں کہ میں نور کے عکس سے بے خبر ہوں اور نور کے لیے بھٹک رہا ہوں
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 229)
- مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.