بمشہد گر سرم سودے چہ بودے
بمشہد گر سرم سودے چہ بودے
درش مسجود من بودے چہ بودے
مشہد میں اگر میرا سر گھستا تو کیا ہی اچھا ہوتا
اگر اس در کا دروازہ میرا مسجود ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
حباب آسا تنم در سیل اشکم
رہ آں روضہ پیمودے چہ بودے
حباب کی طرح میرا جسم میرے آنسوؤں کے سیلاب میں
مشہد کے روضہ کا راستہ طے کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
غبارم را اگر باد سحر گاہ
بکوئے شاہ بر بودے چہ بودے
اگر صبح کے وقت کی ہوا میرے غبار کو
شاہ کی گلی میں لے جاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
مرا اے کاش سلطان دو عالم
سگ درگاہ فرمودے چہ بودے
کاش دونوں جہانوں کا بادشاہ مجھ کو
اپنی بارگاہ کا کتا کہہ دیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
تہ نعل سمندر شوخ آں شاہ
سراپایم چو فرسودے چہ بودے
اس شاہ کے شوخ گھوڑے کی نعل کا تلوا اگر میرے جسم کو
گھسا دیتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
اگر تیر مژہ را آں کماندار
بکیس چشم اندودے چہ بودے
اگر وہ تیر انداز اپنی پلک کے تیر کو میری آنکھ کے تھیلے میں
رکھتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
خداوندا بمینائے دل من
مئے عشقش گر آمودے چہ بودے
یا اللہ میرے دل کی صراحی میں اس کے عشق کی شراب
اگر آجاتی تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
اگر مانند شانہ پنجۂ من
گرہ زاں زلف بکشودے چہ بودے
اگر میرا پنجہ کنگھی کی طرح اس کی زلف کی گرہ کو کھولتا
تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
شب و روز ست چوں دولاب در چرخ
دمے وارثؔ گر آسودے چہ بودے
رات دن جیسے کنویں کی چر کھڑی گھومتی رہتی ہے
اسی طرح وارثؔ کا دم اگر آسودہ ہوجاتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.