باز آمدم باز آمدم از پیش آں یار آمدم
در من نگر در من نگر بہر تو غم خوار آمدم
میں واپس آ گیا، میں اپنے یار کے پاس سے لوٹ آیا
دیکھو میں تمہارے لیے دکھ دور کرنے آ گیا
شاد آمدم شاد آمدم وز جملہ آزاد آمدم
چندیں ہزاراں سال شد من بہ گفتار آمدم
میں بخوشی پوری دنیا سے آزاد ہو کر آیا
ہزاروں سال بعد مجھے بولنے کی طاقت ملی ہے
من مرغ لاہوتی بدم دیدم کہ ناسوتی شدم
دامش بدیدم ناگہے در وے گرفتار آمدم
میں لاہوت کا پرندہ تھا اب ناسوت ہو گیا ہوں،
میں نے اچانک اس کا دامن تھاما اور اس کا قیدی ہو گیا
من نور پاکم اے پسر در مشت خاک مختصر
آں جا بیا ما را بہ بیں کاینجا سبک سار آمدم
میرے بیٹے! میں ایک مٹھی مٹی میں پاک نور کی طرح ہوں
یہاں آ کر مجھے دیکھو کہ میں کس قدر تیز بھاگتا آیا ہوں
وے را چو جویاں آمدم گریان و پویاں آمدم
مانند مستاں آمدم وے را طلب گار آمدم
میں اس کی تلاش میں روتا بھاگتا آیا
میں اس کی طلب میں مستوں کی طرح آیا
از شمس تبریزیؔ نظر بر من مے فگن با خطر
کاندر بیابان فنا جان و دل افگار آمدم
شمسؔ تبریزی کی طرح مجھ پر خوف کی نظر مت ڈال
کیونکہ میں اس فنا کے میدان میں ٹوٹے دل کے ساتھ آیا ہوں
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 255)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.