چمنے کہ تا قیامت گل او بہ بار بادا
صنمے کہ بر جمالش دو جہاں نثار بادا
ایسا چمن کہ تا قیامت اس میں پھول اور بہار رہے
ایسا صنم کہ اس کے جمال پر دونوں جہاں نثار ہو
زپگاہ میر خوباں بہ شکار می خرامد
کہ بہ تیر غمزۂ او دل ما شکار بادا
صبح صبح حسینوں کا سردار شکار کے لئے آتا ہے
اس کے غمزہ کے تیر کا میرا دل بھی شکار ہو جائے
بہ دو چشم من ز چشمش چہ پیامہاست ہر دم
کہ دو چشمم از پیامش خوش و پر خمار بادا
اس کی آنکھ کا میری ان دو آنکھوں کو کیا پیام آ رہا ہے
کہ یہ دو آنکھیں اس کے پیام سے خوش اور مخمور نظر آرہی ہیں
در زاہدی شکستم بدعا نمود رغبت
کہ برو کہ روزگارت ہمہ بے قرار بادا
میں نے زاہدی کو توڑ ڈالا، اس نےمجھے دعا دی
کہ جاؤ تمہارا دل یوں بے قراری میں گذرے
نہ قرار ماند نہ دل بہ دعائے او ز یاری
کہ خون ماست تشنہ کہ خداش یار بادا
اس یار کی دعا کہ بدولت مجھے قرار نصیب نہیں
ہمارا خون تشنہ ہے خدا ہی اس کا حامی و ناصر ہو
تن من بماہ ماند کہ ز عشق می گدازد
دل من چو چنگ زہرہ کہ گسستہ تار بادا
ہمارا تن چاند کے اندر ہے اور عشق سے پگھل رہا ہے
ہمارا دل زہرہ کے چنگ کی طرح ہے، اس کا تار ہمیشہ ٹوٹا ہی رہے
بہ فدائے جسم منگر کہ بہ بوسد و بریزد
بہ فدائے جاں نگر کہ خوش و خوش گوار بادا
میرے جسم پر جان نثار نہ کر کہ وہ تو ایک دن بوسہ سے مٹی میں مل ہی جائے گا،
میری خودسپردی کو دیکھ، یہ ہمیشہ اسی طرح خوش وخرم رہےگا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.