چراغ چشتیاں را روشنائی
دلچسپ معلومات
درگاہ خواجہ معین الدین چشتی کے مراسم خصوصی میں ایک رسم یہ بھی ہے کہ اذانِ مغرب سے قبل اندورنِ گنبد جب روشنی کی جاتی ہے تو فانوسوں کو احترام کے ساتھ سر پر رکھا جاتا ہے اور یہ منقبت پڑھی جاتی ہے، یہ متحقق نہ ہوسکا کہ یہ منقبت کس کی لکھی ہوئی ہے، تذکروں میں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا، اشعار جس قدر اعلیٰ تراکیب اور نفیس بندشوں سے مزین ہیں اور مضمون بھی ہر شعر کا جتنا بلند سطح کا حامل ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ منقبت کسی عالی مرتبت شاعر کی لکھی ہوئی ہے، یہ رسم زمانۂ قدیم سے جاری ہے، اب تک یہ معلوم نہ ہوسکا کہ چراغ دان کو سرپر اٹھانے کی ابتدا درگاہ میں کب ہوئی، متوسلینِ آستانہ کو بھی نہیں معلوم لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ جلال الدین محمد اکبر کو خواجہ بزرگ سے بے پناہ عقیدت رہی ہے، شاید اسی زمانہ میں جب اکبر نے اپنے محلات میں چراغ کے احترام رواج دیا اور خود آگ اور سورج کے آگے تکریم کرنے لگا تب ’’الناس علی دین ملوکھم‘‘ کے مصداق درگاہ میں بھی یہ رسم چل پڑی۔
خواجۂ خواجگاں معین الدین
اشرف اؤلیائے روئے زمیں
خواجۂ خواجگاں معین الدین،
روۓ زمین کے تمام اولیاء کے سردار۔
آفتاب سپہر کون و مکاں
بادشاہ سریر ملک یقیں
کون و مکاں کے آسمان کے آفتاب،
یقین کے ملک کے تخت کے بادشاہ۔
مطلعے در صفات او گفتم
در عبارت بود چو در ثمیں
میں نے اس کے اوصاف کے بیان میں مطلع کہا،
لیکن الفاظ اس کے سامنے گویا قیمتی موتیوں کی مانند تھے۔
اے درت قبلہ گاہ اہل یقیں
بر درت مہر و ماہ سودہ جبیں
اے کہ تیرا در اہلِ یقین کا قبلہ ہے،
تیرے در پر سورج و چاند بھی پیشانی رگڑتے ہیں۔
روئے بر در گہت ہمی سائید
صد ہزاراں ملک چو خسرو چیں
سینکڑوں فرشتے، خسرو چیں کی مانند،
تیرے درگاہ پر اپنے سر کو جھکاتے ہیں۔
ذرۂ خاک او عبیر سرشت
قطرۂ آب او چو ماء معیں
تیری خاک کا ذرّہ عطر عبیر کی مانند معطّر ہے،
اور اس کا قطرۂ آب آب زلال کی طرح پاکیزہ ہے۔
خادمان درت ہمہ رضواں
در صفا روضہ ات چو خلد بریں
تیرے در کے تمام خادم رضوان کی مانند ہیں،
اور تیرے روضہ کی صفا جنت بریں کی طرح ہے۔
الٰہی تا بود خورشید و ماہی
چراغ چشتیاں را روشنائی
اے خدا جب تک سورج و چاند روشن رہیں،
تب تک چشتیوں کے چراغ میں یہ روشنی باقی رہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.