Font by Mehr Nastaliq Web

چوں ز جام وصل مستم روز و شب

اوحدی

چوں ز جام وصل مستم روز و شب

اوحدی

MORE BYاوحدی

    چوں ز جام وصل مستم روز و شب

    عارفم زاندوہ و آزاد از طرب

    چونکہ میں وصل کے جام سے رات دن مست ہوں، میں دکھوں سے آشنا اور عشق کی زندگی سے بے فِکر ہو گیا ہوں۔

    گرچہ خوبانند در عالم ولے

    بس عجب بینم ترا از ہر عجب

    دنیا میں حسینوں کی کمی نہیں ہے، لیکن میں تجھے عجیب اور زیادہ عجیب دیکھتا ہوں۔

    گہ زخود فانی شوم باقی بذات

    گہ ز فرقت جاں بہ یاید تا بہ لب

    کبھی میں خود کو مٹانے کا مزہ پا کر ہی اپنی ذات میں بقا پاتا ہوں، تو کبھی فِراق میں میری جان ہونٹوں تک آ جاتی ہے۔

    طالب حوران جنت نیستم

    شادیٔ وصل ترا دارم طلب

    مجھے جنّت کی حُوروں کی طلب نہیں ہے، میں تو صرف تیرے وصل کا طلبگار ہوں۔

    واصل حسن رخ تو در جہاں

    نیست خالی ہر زماں از تاب و تب

    تیرے چہرے کے حُسن کے شیدائی دُنیا میں بہت ہیں، تیری چمک دمک سے یہ دُنیا کبھی خالی نہیں رہتی۔

    ہر زماں از آتش و سودائے تو

    از درون سینہ می آید لہب

    ہر وقت تیری دیوانگی کی آگ، ہمارے سینے میں دہکتی رہتی ہے۔

    چوں ز جام شوق مستم اوحدیؔ

    مست و مے خوار آمدہ ما را لقب

    اے اوحَدی چونکہ میں چاہت کے جام سے مست ہوں، لوگ مجھے مست اور مے خوار کہہ کر پُکارتے ہیں۔

    مأخذ :
    • کتاب : نغمات سماع (Pg. 47)
    • مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے