دل برد از من دیروز شامے
دل برد از من دیروز شامے
فتنہ طرازے محشر خرامے
وہ فتنہ انگیز، قیامت خرام محبوب
کل شام میرا دل لے گیا
روئے مبینش صبح تجلیٰ
موج جبینش ماہ تمامے
اس کا روشن چہرہ صبحِ نور کی مانند ہے،
اور پیشانی کی لہر پوری چودھویں رات کے چاند کی طرح ہے۔
مشکیں خط او سنبل بگلشن
لعلیں لب او بادہ بہ جامے
اس کا مشکیں خط باغ میں کھلے سنبل جیسا ہے،
اور اس کے لعل جیسے لب جام میں بھری ہوئی شراب کی مانند ہیں۔
چشمے کہ کوثر یک جرعۂ او
قدے کہ طوباش ادنیٰٰ غلامے
اس کی آنکھیں ایسی ہیں گویا کوثر کا ایک گھونٹ
اور اس کا قد ایسا ہے کہ طوبٰی کا درخت بھی اس کا ادنیٰ غلام ہے۔
برق نگاہش صد جاں بہ دامن
زلف سیاہش صد دل بدامے
اس کی نظر کی بجلی سینکڑوں جانوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے،
اور اس کی سیاہ زلفیں سینکڑوں دلوں کو دام میں گرفتار کر لیتی ہیں۔
آں تیغ ابرو واں تیر مژگاں
آمادہ ہر یک بر قتل عامے
وہ تلوار جیسی ابرو اور تیر جیسی مژگاں
دونوں ہی قتلِ عام کے لیے تیار رہتی ہیں
ہر عشوۂ او شیریں مقالے
ہر غمزۂ او رنگیں پیامے
اس کی ہر ادا ایک میٹھی بات ہے،
اس کا ہر انداز ایک رنگین پیغام ہے۔
عارض چہ عارض گیسو چہ گیسو
صبحے چہ صبحے شامے چہ شامے
کیا رخ ہے اس کا اور کیا زلفیں ہیں
کیسی صبح ہے اور کیسی شام!
گاہے بہ مستی طاؤس رقصاں
گاہے بشوخی آہو خرامے
کبھی وہ مستی میں رقص کرتے طاؤس جیسا لگتا ہے،
اور کبھی شوخی میں ہرن کی طرح مٹکتا ہوا چلتا ہے۔
از بار مینا لرزش بدستے
وز کیف صہبا لغزش بگامے
می کے پیالے کے بوجھ سے ہاتھ میں لرزش ہے
اور شراب کی مستی سے اس کے قدم میں لڑکھڑا ہٹ ہے
از چشم لرزاں لرزاں دو عالم
وز زلف برہم برہم نظامے
اس کی لرزتی ہوئی آنکھوں سے دونوں عالم لرز اٹھتے ہیں،
اور اس کی پریشان زلفوں سے سارا نظام اُلٹ جاتا ہے۔
گفتم حدیث درد محبت
باصد سجودے باصد سلامے
میں نے عشق کے درد کی بات انتہائی ادب،
صد ہزار سجدوں اور سلاموں کے ساتھ کی۔
گفتم چہ جوئی گفتا دل و جاں
گفتم چہ خواہی گفتا غلامے
میں نے پوچھا تم کیا چاہتے ہو؟کہنے لگا تمہارا دل اور جان!
میں نے پوچھا اور کیا چاہتے ہو ؟اس نے کہا تمہاری غلامی!
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 418)
- مطبع : نور الحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.