بملازمان سلطاں کہ رساند ایں دعا را
کہ بہ شکر پادشاہی ز نظر مراں گدا را
بادشاہ دو جہاں کے غلاموں تک اور ان کے ذریعہ اس بارگاہِ عالی تک کاش یہ التجا کوئی پہنچادے کہ دونوں جہان کی سروری ملنے کے شکرانے میں حضورِ عالی اس گدائے حقیر کو اپنی نگاہوں سے دور نہ کریں۔
چہ قیامتست جاناں کہ بہ عاشقاں نمودی
رخ ہم چو ماہ تاباں دل ہم چو سنگ خارا
اے محبوب! عاشقوں کے حال پر یہ کیسی قیامت ہے کہ چہرہ تو چاند کی طرح روشن ہے اور دل پتھر کی مانند (یعنی محبوبِ حقیقی ذاتِ باری تعالیٰ کبھی تو انوار وتجلیات کا ظہور فرماتا ہے اور کبھی ان سے ایسا بے نیاز ہوجاتا ہے، جیسے سخت پتھر دل)۔
ہمہ شب دریں امیدم کہ نسیم صبح گاہی
بہ پیام آشنائی بنوازد ایں گدا را
(پھر بھی رشتۂ امید ہاتھ سے نہیں چھوٹتا) اور تمام شب اس امید میں بسر ہوتی ہے کہ کسی دن صبح کی نسیم کی مانند وہ محبوب پیغام آشنائی سے اس حقیر کو سرفراز کرے گا۔ (کبھی تو اس کی بے نیازی ادھر متوجہ ہوگی)۔
بہ خدا کہ جرعہ دہ تو بہ حافظ سحر خیز
کہ دعائے صبح گاہی اثرے کند شما را
حافظ سحر خیز کو خدا کے واسطے شراب (حقیقت ومعرفت) کا ایک گھونٹ عطا کر جس کو پی کر وہ تیرے حق میں دعا کرے کیونکہ دعائے صبح گاہی بڑی مؤثر ہوتی ہے۔ (خطاب یہاں پر ساقی سے ہے، جس سے مرشدِ طریقت بھی مراد لے سکتے ہیں)۔
- کتاب : نغمات الانس فی مجالس القدس (Pg. 129)
- Author :شاہ ہلال احمد قادری
- مطبع : دارالاشاعت خانقاہ مجیبیہ (2016)
- اشاعت : First
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.