آشفتہ مہروئے پر ناز و ستم گارم
آشفتہ مہروئے پر ناز و ستم گارم
من کشتہ ابروئے آں دلبر عیارم
میں اس چاند سے چہرے والے محبوب کا شیدائی ہوں جو سراپا ناز اور اپنی ادائے حسن سے جفا پیشہ بھی ہے، میں اس نازنین دلبر کے ابرو کا مقتول ہوں یعنی میرے محبوب نے مجھے اپنے دو ابرو سے جو قوس مثالی نظر آتے ہیں قتل کر دیا ہے۔
بر یاد سیہ چشمے ہمہ روز سیاہم شد
وز ناوک مژگانش صد خار بہ دل دارم
محبوب کی سیاہ آنکھوں کی یاد میں سارا دن سیاہ ہو گیا ہے، اس کے پلکوں کے تیر سے سو کانٹے میرے دل میں چبھے ہیں۔
از زلف پریشانش شد خانہ بہ دوش من
در مصحف روئے او آیات خدا دارم
اس کی پریشان زلفوں کے خیال میں خانہ بدوش مسافر بن گیا ہوں، اس کا پاکیزہ چہرہ جو قرآن پاک کی مانند ہے اس سے کئی آیات خدازبر رکھتا ہوں۔
عشق آمد و شد ساری چوں بو بگلاب اندر
او در من و من در وے سریست ز اسرارم
عشق آ گیا ہے اور مجھ میں سریان کر گیا جیسے خوشبو گلاب کے اندر سریاں کرتی ہیں، وہ مجھ میں ہے اور میں اس میں ہوں یہ میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔
بیروں نہ ز دم قدمے ویں طرفہ تماشابیں
پر آبلہ شد پایم عمریست کہ سیارم
میں نے گھر سے قدم باہر نہیں رکھا اور یہ عجیب تماشہ دیکھو کہ ہمارے پاؤں سب چھالے ہی چھالے ہی عمر گزری کہ ہم سیر کرنے والے ہیں۔
قد کان و معہ ما کان من الاکوان
الان کماکان مشہود دل زارم
وہ ذات تھی اور اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا اب بھی وہ اسی طرح ہے جس طرح پہلے تھا یہ میرے دل زار کا آنکھوں دیکھا حال ہے۔
در کوئے خدا بیناں زاں روز کہ شد گذرم
از مذہب خود بینی بیزارم و بیزارم
خدا تعالیٰ کے دیکھنے والوں کے کوچے میں میرا جب سے گزر ہوا میں خود بینی کے مذہب سے بیزار ہوں بیزار ہوں۔
تا ساقی مستانم مے ریختہ در کامم
عریان و خراباتم رقصانم و سرشارم
جب سے میرے مست ساقی نے میرے گلے میں شراب محبت ٹپکائی ہے میں عریاں و خراب ہوں رقص کر رہا ہوں اور شراب محبت سے مست ہوں۔
تا یافتہ ام خبرے از باب علوم دل
دلدادہ بہ مہرؔ آں شہ حیدر کرارم
جب سے میں نے علوم دل کے دروازے کی معرفت حاصل کی ہے اسی دن سے حضرت مولیٰ علی کا دل و جان سے فریفتہ ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.