نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
دلچسپ معلومات
نوٹ: اس غزل کے دو مقطع دیے گئے ہیں ایک رائج ہے دوسرا ’نغمات سماع‘ سے ہے۔ اس غزل کا ترجمہ: احمد علی برقیؔ اعظمی کا ہے۔
نمی دانم چہ منزل بود شب جائے کہ من بودم
بہ ہر سو رقص بسمل بود شب جائے کہ من بودم
کل رات جہاں میں تھا وہ ایک انجان جگہ تھی
کل جہاں میں تھا ہر طرف زخمیوں کا رقص ہو رہا تھا
پری پیکر نگارے سرو قدے لالہ رخسارے
سراپا آفت دل بود شب جائے کہ من بودم
کل رات جہاں میں تھا لالہ چہرے، لمبے قد اور پری جیسے لوگ
ہمارے دل کے لیے آفت بنے ہوئے تھے
رقیباں گوش بر آواز او در ناز و من ترساں
سخن گفتن چہ مشکل بود شب جائے کہ من بودم
کل رات جہاں میں تھا تمام رقیب اس کی بات پر کان دھرے ہوئے تھے
وہ غرور میں تھا اور میں ڈرا تھا، وہاں بات کرنا بھی مشکل ہو گیا تھا
خدا خود میر مجلس بود اندر لا مکاں خسروؔ
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اے خسروؔ کل جہاں میں تھا وہاں خدا خود میر مجلس تھا
جب کہ محمد ؐشمع محفل تھے
مرا از آتش عشق تو دامن سوخت اے خسروؔ
محمدؐ شمع محفل بود شب جائے کہ من بودم
اے خسروؔ عشق کی آگ نے میرا دامن جلا ڈالا
کل رات جہاں میں تھا وہاں محمدؐ خود شمع محفل تھے
- کتاب : نغمات سماع (Pg. 228)
- مطبع : نورالحسن مودودی صابری (1935)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.